مشورے کی اہمیت
مشورے کی اہمیت کے بارے میں ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے: کَانَ أَبُو ہُرَیْرَةَ یَقُولُ:مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَکْثَرَ مُشَاوَرَةً لِأَصْحَابِہِ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 4872)۔ یعنی ابوہریرہ کہا کرتے تھے کہ میں نے کسی کو نہیں پایا جو اپنے اصحاب سے اتنا زیادہ مشورہ کرتا ہو، جتنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔
مشورہ فطرت کا ایک حکیمانہ اصول ہے۔ مشورہ بظاہر دوسرے سے کیا جاتا ہے، لیکن نتیجےکے اعتبار سے مشورہ کا مطلب ہے، خود اپنے ذہن (mind) کے بند گوشوں کو کھولنا ہے۔ مشورہ کا مقصد اپنے ذہن کو متحرک (active) کرنا ہے۔ مشورہ کوئی یک طرفہ عمل نہیں۔ مشورہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک مشترک ڈسکشن (mutual discussion) ہے۔ مشورے کا مقصد اپنے سوچنے کے دائرے کو بڑھانا ہے۔ مشورہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اپنے آپ کو انفرادیت کے دائرے سے نکال کر آفاقیت کے دائرے میں لانا ہے۔ مشورہ ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔مشورہ اپنے تجربے میں دوسرے کے تجربے کو شامل کرنا ہے۔
مشورے کا ایک اخلاقی پہلو بھی ہے۔ مشورے سے تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے۔ مشورہ اس بات کا ذریعہ ہے کہ آدمی خول (cell) میں رہنے والا نہ بنے۔مشورہ آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ انفرادی عقل (individual wisdom) کے دائرے سے نکل کر عالمی عقل (universal wisdom) میں جینے والا بن جائے۔ خلیفہ ثانی عمر فاروق کے بارے میں آتا ہے: کان یتعلم من کل احد۔ یعنی وہ ہر ایک سے سیکھتے تھے۔ تعلم اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک مشورہ ہے۔ اس روایت کو لفظ بدل کر اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ کان یشاور من کل احد۔یعنی وہ ہر ایک سے مشورہ کرتے تھے۔ مشورے کا مطلب اپنی عقل میں دوسرے کی عقل کو شامل کرنا ہے۔