مصیبت کیوں
قرآن کی کئی آیتیں ایسی ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں انسان کو طرح طرح کی مصیبتیں پڑیں گی، طرح طرح کے مسائل پیش آئیں گے۔اس کا سبب یہ ہے کہ دنیا کے خالق نے دنیا کو دار الکبد (البلد،90:4) کے طور پر بنایا ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے، جس سے کوئی شخص بچ نہیں سکتا۔ مصیبت (suffering) اس دنیا کی زندگی کا ایک لازمی حصہ (integral part) ہے۔ آخرت سے پہلے یہ حالت کبھی ختم ہونے والی نہیں۔
اس کاسبب یہ ہے کہ مشکلات کا تجربہ انسان کے اندر حساسیت (sensitivity) پیدا کرتا ہے، اور حساسیت انسان کے اندر اخذ (grasp) کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ اگر انسان کے اندر حساسیت نہ ہو، تو وہ حیوان کی مانند ہو کر رہ جائے گا۔ موجودہ دنیا ایک جنگل کی مانند ہے۔ اس دنیا میں انسان کو افکار کے جنگل کے درمیان جینا پڑتا ہے۔ اس بنا پر اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ انسان کے اندر شدید حساسیت پیدا ہو، تاکہ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرے۔ وہ متعلق (relevant) اور غیر متعلق میں فرق کرکے ایک کو دوسرے سے الگ کرسکے۔ یہ تفریق بہت زیادہ اہم ہے۔ اسی تفریق (differentiation) سے انسان کے اندر عقلی ارتقا ہوتا ہے۔
اگر آدمی کے اندر حساسیت نہ ہو، تو وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق نہیں کرے گا۔ وہ حکمت (wisdom) کی دریافت سے محروم رہے گا۔ اس کی باتوں میں وضوح (clarity) نہیں ہوگا۔ اس کی سوچ الجھے ہوئے دھاگے کی مانند ہوگی۔اسی لیے رسول اللہ نے اس دعا کی تعلیم دی ہے: أَرِنَا الْأَشْیَاءَ کَمَا ہِیَ(تفسیر الرازی، 1/119)۔ یعنی اے اللہ مجھے چیزوں کو ویسے ہی دکھا، جیسا کہ وہ ہیں۔ایز اٹ از (as it is)دیکھنے کی یہ صلاحیت کسی کے اندر حساس ذہن کے بغیر پیدا نہیں ہوتی۔اس قسم کا ذہن پیدا ہونے کی شرط صرف ایک ہے، وہ یہ کہ ناموافق تجربہ پیش آنے کی صورت میں انسان اپنے کو شکایتی ذہن سے بچاسکے۔