باہمی انحصار کا دور
موجودہ زمانہ ایک نیا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں ایسے تقاضے وجود میں آئے ہیں، جو پہلے کبھی موجود نہ تھے۔ جو شخص موجودہ زمانے میں رہنمائی کا کام کرنا چاہے، اس کو سب سے پہلے یہ کرنا چاہیے کہ خالص موضوعی ذہن (objective mind) کے ساتھ مطالعہ کرکے نئے زمانے کو سمجھے، اس کے بعد رہنمائی کا کام کرے۔ اس قسم کی تیاری کے بغیر جو لوگ رہنمائی کے منصب پر کھڑے ہوجائیں، وہ بلاشبہ لوگوں کو بھٹکانے کا کام کررہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ان پر فرض ہے کہ وہ چپ رہیں، نہ کہ حقیقت سے واقفیت کے بغیر بولنا شروع کردیں۔
ان نئے تقاضوں میں سے ایک تقاضا یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جو صنعتی انقلاب آیا ہے، اس نے اجتماعی زندگی میں ایک نیا دور پیدا کردیا ہے۔ اس دور کو ایک لفظ میں باہمی انحصار کا دور (age of interdependence) کہا جاسکتا ہے— لیڈر کو ووٹر کی ضرورت ہے، تاجر کو کسٹمر کی ضرورت ہے، ڈاکٹر کو مریض کی ضرورت ہے، میڈیا کو ویورس (viewers) کی ضرورت ہے، وغیرہ۔اس نئے تقاضے نے ایک نیا کلچر پیدا کیا ہے۔ اس نئے کلچر کو میوچول انٹرسٹ (mutual interest) کا کلچر کہہ سکتے ہیں۔ ہر ایک کو دوسرے کی ضرورت ہے، ہر ایک کاکام دوسرے پر اٹکا ہوا ہے۔
اس صورتِ حال نے موجودہ زمانے میں ایک نیا جبر (compulsion) پیدا کیا ہے۔ ہر ایک مجبور ہے کہ وہ پر امن طریقے سے رہے، ہر ایک مجبور ہے کہ وہ دوسرے کا احترام کرے۔تاکہ ہر ایک کو دوسرے سے اس کا فائدہ ملتا رہے۔مگر اس دور میں صرف مسلمان ہیں، جن کو ان کے نام نہاد لیڈروں نے اس حقیقت سے بے خبر بنا رکھا ہے۔ مثلاً مسلمانوں نے کشمیر میں ہنگامہ کرکے، وہاں سیب کا بزنس ختم کردیا، مصر میں مسلمانوں نے ہنگامہ کرکے وہاں سے سیاحت کا بزنس ختم کردیا، وغیرہ۔ موجودہ زمانے میں تشدد کی سیاست ایک کاؤنٹر پروڈکٹیو سیاست ہے، مگر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے، اس لیے وہ خلاف زمانہ حرکت (anachronistic culture) میں مبتلا ہیں۔