دنیا اور آخرت
انسان موجودہ دنیا میں پیدا ہوتاہے۔ یہاں وہ اپنے صبح وشام گزارتا ہے۔ مختلف تجربات کے دوران یہاں اس کی زندگی کا سفر جاری رہتا ہے۔ ان تجربات کے ذریعے شعوری یا غیر شعوری طورپر انسان کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ یہی موجودہ دنیا حقیقی دنیا ہے۔ اس کے مقابلے میں اس کو محسوس ہوتاہے کہ آخرت کی دنیا تصوراتی دنیا (imaginary world) ہے۔دونوں دنیاؤں کے درمیان بظاہر اس فرق کی بنا پر یہ ہوتا ہے کہ انسان کا تفکیری عمل (thinking process) موجودہ دنیا کے لیول پر جاری ہوجاتاہے۔ اس کی سوچ اور اس کی منصوبہ بندی میں عملاً آخرت کا کوئی مقام باقی نہیں رہتا۔
یہ انسان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وسیع تر انجام کے اعتبار سے صحیح یہ ہے کہ انسان کے اندر آخرت رخی سوچ (Akhirat-oriented thinking)بنے، نہ کہ دنیا رخی سوچ۔انسان کو اس معاملے میں بے راہ روی سے بچانے کے لئے فطرت نے یہ انتظام کیا ہے کہ موجودہ دنیا کو مسائل کی دنیا (دار الکبد) بنا دیا۔ یہ مسائل انسان کے لئے اسپیڈ بریکر (speed breaker) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ مسائل اس لئے ہیں کہ انسان موجودہ دنیا کو حقیقی دنیا نہ سمجھے، بلکہ آخرت کے اعتبار سےاپنی زندگی کی تعمیر کرے۔
زندگی کی یہی حقیقت ہے جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیاہے:وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ۔ الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ۔ أُولَئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّہِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُونَ (2:155-157)۔ یعنی اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پیداوار کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے اوپر ان کے رب کی شاباشیاں ہیں اور رحمت ہے۔ اور یہی لوگ ہیں جو راہ پر ہیں۔