امت میں قتال
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیوں میں سے ایک پیشین گوئی یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں امت کے اندر قتال کا کلچر جاری ہوجائےگا، اور قتال کا یہ کلچر قیامت تک جاری رہے گا۔ یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:إِذَا وُضِعَ السَّیْفُ فِی أُمَّتِی لَمْ یُرْفَعْ عَنْہَا إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر4252)۔یعنی جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو وہ اس سے قیامت تک نہیں اٹھائی جائے گی۔
امت کے بارے میں یہ حدیث ایک پیشین گوئی کے طور پر آئی ہے۔ اس لحاظ سے امتِ مسلمہ کے بعد کے تاریخی واقعات کی بنیاد پر اس حدیث کی تشریح کی جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت یہ بات کہی، اس وقت اس کا مصداق موجود نہ تھا۔ یہ مصداق آپ کے بعد امت کے اندر پیدا ہوا۔ اس لیے اس حدیث کی تشریح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ امت کے بعد کے زمانے میں اس کا مصداق تلاش کیا جائے، اور پھر اس کی روشنی میں اس حدیث کی شرح کی جائے۔
اب دیکھیے کہ قرآن میں قتال کا حکم کس سیاق (context) میں آیا ہے۔ یہ بات قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتی ہے:وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ (8:39)۔ یعنی اور ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے، اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے۔قرآن کی اس آیت میں قتال کا حکم بھی ہے، اور یہ بھی ہے کہ یہ قتال کب تک جاری رکھنا ہے۔ اس آیت میں فتنہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ فتنہ کا لفظی مطلب ہے، سونے کو آگ میں ڈال کر تپانا۔ اسی سے اس لفظ کو ستانے کے مفہوم میں استعمال کیا جانے لگا۔ قرآن کی اس آیت میں فتنہ کا لفظ مذہبی ایذا رسانی (religious persecution)کے معنی میں آیا ہے۔
پیغمبرِ اسلام سے پہلے دنیا میں مذہبی رواداری (religious tolerance) کا وجود نہ تھا۔ اس زمانے میں غالب گروہ کے خلاف مذہب اختیار کرنے والے کو مذہبی ایذا رسانی کا شکار بنایا جاتاتھا۔ یہ کلچر خالق کے تخلیقی نقشے (creation plan) کے خلاف تھا۔ چنانچہ رسول اور اصحابِ رسول کو یہ حکم دیا گیا کہ مذہبی ایذا رسانی (فتنہ) کے خلاف جنگ کرکے اس کو ختم کردو۔ تاکہ تخلیقی نقشہ کے مطابق دنیا میں مذہبی آزادی کا دور آجائے۔
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ساتویں صدی عیسوی کے رُبعِ اول کا زمانہ ہے۔ اس وقت جب رسول نے مذہبِ توحید کا مشن شروع کیا تو وہ لوگ آپ کے خلاف ہوگئے، جو مذہبِ شرک پر قائم تھے۔ انھوں نے آپ کے خلاف تشدد اور جنگ کا طریقہ اختیار کیا۔ اس طرح دونوں گروہوں کے درمیان ٹکراؤ ہوا، جو آخر کار یہاں تک پہنچا کہ مذہبی ایذا رسانی کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ ساتویں صدی عیسوی سے اب تک کی تاریخ بتاتی ہےکہ مذہب کے نام پر ایذا رسانی کا دور اس طرح ختم ہوا کہ وہ دوبارہ عمومی کلچر کے طور پر دنیا میں رائج نہ ہوسکا۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں قتال (جنگ) کا حکم ایک عارضی(temporary) سبب سے تھا۔ جب یہ سبب ختم ہوجائے تو قتال کا حکم بھی عملاً موقوف ہوجائے گا۔ یہی اسلام کی تاریخ میں پیش آیا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں، ماضی کے تسلسل کے تحت جنگ کی صورت پیش آئی۔ مگر جنگ کا یہ حکم عارضی تھا۔ قرآن کے الفاظ میں جب محاربین اپنا اوزار رکھ دیں (محمد، 47:4)، تو جنگ کا خاتمہ ہوگیا، اور اس کے بعد وہ اصل کام شروع ہوگیا جو اسلام کا مستقل حکم تھا، یعنی دعوت الی اللہ۔ اس کے بعد انیسویں صدی کا زمانہ جب شروع ہوا تو یہ زمانہ حقیقت میں جنگ سے بیزاری اور مذہبی آزادی کو بطور نارم (norm)ماننے کا زمانہ تھا، مگر مسلمانوں نے دوبارہ ایک جنگ شروع کردی۔ بظاہر یہی وہ جنگ ہے جس کا اشارہ بطور پیشین گوئی مذکورہ بالا حدیث ِرسول میں کیا گیا تھا۔ اور اس پیشین گوئی کے مطابق، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس جنگ کا خاتمہ ہونے والا نہیں۔ یہاں تک کہ قیامت آجائے اور خود دنیا کا خاتمہ ہوجائے۔
امت میں یہ دوسرے دور کا جو قتال وجود میں آیا، اس کاکوئی تعلق قرآن کے حکمِ قتال (الانفال، 8:39) سے نہیں ہے۔ یہ خود ساختہ نظریے کے تحت وجود میں آیا ہے۔ قرآن میں قتال کا حکم ختمِ فتنہ (الانفال، 8:39) کے لیے تھا۔ اس کے برعکس، بعد کے زمانے میں جو قتال امت میں جاری ہوا، وہ مسلم رہنماؤں کے بیان کے مطابق ختم اعدا(to finish the enemies) کے لیے ہے۔ مگر ختم اعدا کے لیے جنگ کرنے کا کوئی تصور اسلام میں نہیں۔
قرآن کی صراحت کے مطابق، عداوت جنگ کا اشو نہیں ہے، بلکہ وہ دعوت کا اشو ہے۔ مسلمانوں کو اگر کوئی شخص یا گروہ بظاہر دشمن دکھائی دے تو اس سے وہ لڑائی نہیں چھیڑ سکتے۔ ان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اس پر پرامن انداز میں دعوت الی اللہ کا کام کریں۔یہ حکم قرآن کی ایک آیت سے نہایت واضح طور پر معلوم ہوتا ہے:وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:34)۔ یعنی بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔
موجودہ زمانے میں مسلمان دشمنانِ اسلام کے نام سے جو مسلّح جنگ چھیڑے ہوئے ہیں، وہ ہرگز قرآن یا اسلام کے مطابق نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں کے اپنے خودساختہ جواز (self-styled justification) کی بنیاد پر ہے۔ یہ لوگ قرآن و حدیث کی غلط تشریح کے ذریعے اس کو درست ثابت کررہے ہیں۔ یہ طریقہ غلطی پر سرکشی کا اضافہ ہے۔
اسی غلط توجیہات کی بنیاد پر ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان متشددانہ کوششوں کا انجام بالکل برعکس صورت میں نکل رہا ہے۔ مسلمان مسلسل طور پر ذلت آمیز شکست کا تجربہ کررہے ہیں۔ ان کوششوں کا بے نتیجہ ہونا، بلکہ کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive) ثابت ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اللہ کی مرضی کے مطابق نہیں۔ کیوں کہ قرآن میں بار بار یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر تم اللہ کے راستے میں کوشش کروگے تو تمہاری کوشش اللہ کی نصرت سے ضرور کامیاب ہوگی۔ اس یقین دہانی کے باوجود مسلمانوں کا ناکام ہونا، اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ غلطی پر ہیں، اور غلطی کرنے والے کے لیے توبہ ہے، نہ کہ اپنی غلطی کو مزید جاری رکھنا۔