عید الاضحی اسپرٹ
عید الاضحی کی مناسبت سے مولانا وحید الدین خاں صاحب نے اپنی ڈائری میں تاثرات درج کیے ہیں، يهاں دو تاثرات نقل کیے جاتے ہیں—’’آج (5 اگست کو)دہلی میں عید الاضحی ہے۔ میں فجر سے پہلے اٹھا۔ ’’صلوۃ مغفرت‘‘ کی نیت کر کے دو رکعت نماز پڑھی۔ اب جب کہ یہ سطریں لکھ رہا ہوں، قریب کی مسجد سے فجر کی اذان کی آواز آرہی ہے۔ آج کل میں بہت کمزور ہو گیا ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید اب میری موت قریب آ گئی ہے۔چنانچہ فجر سے پہلے جب دو رکعت نماز کے لیے کھڑا ہوا تو اپنے آپ یہ نیت دل میں آ گئی کہ خدایا تو میری اس نماز کو میری مغفرت کے لیے قبول کر لے۔ اگرچہ میرے کسی عمل کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ مگر تو اسی کو اپنی رحمت کے لیے بہانہ بنا لے اور مجھے بخش دے۔ نماز پڑھتے ہوئے بے اختیار آنسو نکلنے لگے۔ یہاں تک کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ میری زبان سے یہ دعا نکلی کہ خدایا حضرت سلیمان نے تجھ سے کہا تھا — هَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي (38:35)۔یعنی، مجھ کو ایسی سلطنت دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو ۔
میرے مالک، میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ تو میرے ساتھ ایسی رحمت کر جو تونے کسی کے ساتھ نہ کی ہو، وہ یہ کہ تو مجھ کو بلا استحقاق بخش دے۔خدایا! میری مغفرت فرما، میرے والدین کی، میرے بیوی بچوں کی مغفرت فرما۔ خدایا! ان لوگوں کی مغفرت فرما جنھوں نے اس مشن میں میرا ساتھ دیا۔ یا اللہ، یا اللہ، یا اللہ!‘‘ ۔(ڈائری 1987)
22 مئی 1994 کو عید الاضحی کا دن تھا۔اس دن کے تعلق سے مولانا لکھتے ہیں کہ’’ نماز کے بعد دہلی میں ایک صاحب کے یہاں ملنے گیا۔ گھر کے ایک لڑکے نے کہا کہ آج یہاں پانی نہیں آیا۔ لڑکے کے والد نے پُرفخر انداز میں کہا کہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے یہاں پانی کا بہت انتظام ہے۔ میں نے سوچا کہ میرا حال تو یہ ہے کہ پانی موجود ہو تب بھی میں اپنے کو بے پانی سمجھتا ہوں (کیوں کہ یہ ایک خدائی عطیہ ہے، نہ کہ میری کوئی ذاتی تخلیق)، اور لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ پانی کے بغیر بھی اپنے کو پانی والا سمجھ رہے ہیں۔ کتنا فرق ہے ایک انسان اور دوسرے انسان میں‘‘۔ (ڈائری 1994)