عمرہ کا سبق
بعد کے زمانے کے لیے حدیث رسول میں بہت سی پیشین گوئیاں ہیں۔ ایک پیشین گوئی کے مطابق، بعد کے زمانے میں امت کے پاس مال کی فراوانی ہوجائے گی۔ وہ تفریح کے لیےحج اور عمرہ کا سفر کرنے لگیں گے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَحُجُّ أَغْنِيَاءُ أُمَّتِي لِلنُّزْهَةِ، وَأَوْسَاطُهُمْ لِلتِّجَارَةِ، وَقُرَّاؤُهُمْ لِلرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ، وَفُقَرَاؤُهُمْ لِلْمَسْأَلَةِ (تاریخ بغداد للخطیب بغدادی، حدیث نمبر 5433)۔ یعنی ،لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا، جب کہ میری امت کے مالدار تفریح کے لیے حج کریں گے، ان کا مڈل کلاس تجارت کےلیے، اور ان کے علما دکھاوا کے لیے اور ان کے غریب لوگ مانگنے کے لیے۔
آج کل مسلمانوں میں عمرہ کی دھوم ہے۔ عمرہ کے لیے لوگ اتنا زیادہ مکہ جانے لگے ہیں، جو تقریباً حج کے برابر ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ یہ تو جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا۔ لیکن یہ نہیں جانتے کہ رسول اللہ کا عمرہ کے بارے میں اسوہ کیا تھا۔ ہجرت کے بعد 6ہجری میں رسول اللہ نے مدینہ میں اعلان کیا تھا کہ عمرہ کے لیے مکہ جانا ہے۔پھر مدینہ سے آپ تقریباً چودہ سوا صحاب کے ساتھ نکلے تاکہ مکہ پہنچ کر عمرہ کریں۔ لیکن حدیبیہ کے مقام پر پہنچ کر حالات بدل گئے۔ اب آپ نے نیا فیصلہ لیا۔ وہ یہ کہ درمیان سفر سے مدینہ واپس چلے جائیں، اور اگلے سال ، 7ھ میں دوبارہ مکہ جاکر عمرہ کریں۔ اس عمرہ کو اسلامی تاریخ میں عمرۃُ القضاء کے نام سے جانا جاتا ہے۔
رسول اللہ کے اس عمل سے ایک اصول ملتا ہے۔ وہ یہ کہ زندگی کا منصوبہ ناقابلِ تبدیل (unchangeable) منصوبہ نہیں ہے، بلکہ حالات کے تحت ہے۔ اگر حالات بدل جائیں تو منصوبہ بھی بدل سکتا ہے۔ خواہ وہ عمرہ جیسے مقدس عبادت کا منصوبہ هي کیوں نہ ہو۔ لیکن موجودہ زمانے میں عمرہ اور حج کے لیے بھیڑ لگانے والے اس پیغمبرانہ اصول کو نہیں جانتے۔ وہ کسی کو اپنا دشمن سمجھ لیں تو برابر دشمن ہی سمجھتے رہیں گے۔ اگر کسی سے لڑائی چھیڑ دیں، تو لڑائی کو برابر جاری رکھیں گے۔ وہ عمرہ تو جانتے ہیں، لیکن عمرہ کا سبق کیا ہے، اس سے وہ بے خبر ہیں۔