اظہارِ آیات کا دور

قرآن کے نزول کا زمانہ ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول کا زمانہ ہے۔ یہ وہ دور ہے جب کہ انسانی ترقی ابھی سائنس کی دریافتوں تک نہیں پہنچی تھی۔ دنیا میں ابھی امن کا زمانہ نہیں آیا تھا، دنیا میں ابھی دورِ شمشیر باقی تھا۔ اس وقت قرآن میں مستقبل کے بارے میں ایک تاریخی پیشین گوئی کی گئی تھی۔ 

 قرآن کی ایک متعلق آیت کے الفاظ یہ ہیں: سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔

یہ آیت ہجرت سے پہلے نازل ہوئی۔  اس پیشین گوئی پر ہزار سال سے زیادہ کی مدت گزرچکی ہے۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کی یہ پیشین گوئی ساتویں صدی کے بعد کے زمانے میں یقینی طور پر ظہور میں آنی چاہیے۔ اس لیے اب یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اب وہ وقت آچکا ہے کہ ہم یہ معلوم کریں کہ تبیینِِ حق کا یہ دور کب آیا۔ تبیین حق کا معاملہ تبیینِ آیات(کائناتی نشانیوں کے ظہور) سے پہلے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ آیات کی تبیین کے بعد کا معاملہ ہے۔اور ماڈرن سائنس نے کائناتی نشانیوں کو ظاہر کرنا شروع کردیا ہے۔

قرآن کی مذکورہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر کائناتی سطح پر وقوع میں آنے والا تبیین حق، یعنی حق کے اظہار کا ایک درجہ پیغمبر اسلام کے زمانے میں باقی تھا، یہ مستقبل میں ظاہر ہونے والا تھا۔ اور یقینی طو رپر کہا جاسکتا ہے کہ اب ، سائنسی دور میں وہ ظاہر ہوچکا ہے۔دوسرے الفاظ میں، قرآن کی ایک تبیین وہ ہے جونزول قرآن کے زمانےمیں ہوئی۔ لیکن ایک اور تبیین باقی تھی، جو بعد کے زمانے میں پوری ہوئی۔یعنی سائنسی ڈسکوریز کی بنیاد پر ہونے والی تبیین (manifestation

 راقم الحروف کے مطالعے کے مطابق،آیت میں جس تبیینِ حق کا اعلان ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں کیا گیا تھا، وہ اب یقینی طو رپر ایک واقعہ بن چکا ہے۔اس لیے اب یہ دریافت کرنے کا وقت ہے کہ اس تبیین حق سے مراد کیا ہےتا کہ اس کو اپنے علم کا حصہ بنایا جائے۔ اور ایسی تفسیرِ قرآن لکھی جائے، جو سلف کے استنباط اور تشریحات پر مبنی نہ ہو، بلکہ دورِ حاضر کی دریافت شدہ معلومات پر مبنی ہو۔

 جب تک ایسا نہیں کیا جائے گا، مسلمانوں کے لیے دورِ حاضر میں قرآن کے تقاضوں کا جاننا ممکن نہ ہوگا۔دورِ حاضر کے سوالوں کا جواب علمائے سلف کی کتابوں میں نہیں ملےگا، بلکہ اس کا جواب جب بھی ملےگا، وہ دورِ حاضر کےاہل علم کی کتابوں میں ملے گا۔ قیاساً اس میں وہ غیر مسلم افراد یا اقوام شامل ہیں، جن کے بارے میں حدیثوں میں آتا ہے کہ وہ دین کی تائید کریں گے(إِنَّ اللهَ جَلَّ وعَزَّ لَيُؤَيِّدُ الإِسْلَامَ بِرِجَالٍ ‌مَا ‌هُمْ ‌مِنْ ‌أَهْلِهِ)المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640۔ اس روایت کے مطابق، جو لوگ اس حقیقت کو کھولیں گے، وہ غیر اہل ایمان ہوسکتے ہیں۔

 مثال کے طور پر سائنسی اندازے کے مطابق،تقریبا13.8 بلین سال پہلے ایک عظیم کائناتی دھماکہ ہوا۔ اس عظیم دھماکے کو بگ بینگ کہا جاتا ہے۔ بگ بینگ کی ڈسکوری سیکولر اہل علم نے کی ہے۔ ان کے مطابق، یہ عظیم دھماکہ ہماری کائنات کا آغاز تھا۔ غالباً یہی کائناتی واقعہ ہے، جس کا قرآن میں ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے:أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا(21:30)۔ یعنی کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے، پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین و آسمان رتق کی شکل میں تھے۔ رتق کا مطلب ہےمنضم الاجزاء(joined together)یعنی انتہائی شدت کے ساتھ باہم جڑے ہوئے۔ پھراللہ نے ان کا فتق کیا، یعنی یہ تمام اجزاء ایک دوسرے سے الگ الگ کردیےگئے۔

اب اس سے غافل ہونا، مجرمانہ فعل ہوگا، اور یہ بھی کہ جن ایشوز کو لے کر ساری دنیا کے مسلمان بڑے بڑے مظاہرے کررہے ہیں، وہ سب نہ صرف بے سود بلکہ غیر متعلق ہیں۔  اب کرنے کا صرف ایک کام ہے۔وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تبیینِ حق کاجو موقع دیا ہے، اس کو استعمال کیا جائے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom