آج کا نوجوان

 موجودہ زمانے کو ایج آف ریزن (age of reason) کہاجاتا ہے۔مگر آج کےمسلم نوجوان دین کے بارے میں کنفیوزن میں جیتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کےذہن میں مذہب کے بارے میں جدید دور کی نسبت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ ان کےسوالوں کے جوابات روایتی انداز میں فراہم کیے جاتے ہیں،یعنی وہ جوابات "یہ کرو، اور وہ نہ کرو (do's and don'ts)" کے اصول پر مبنی ہوتے ہیں۔اس طرح کے جواب سے ان نوجوانوں کا ذہن ایڈریس نہیں ہوتا۔ یہی وہ چیز ہے جس نے آج کے نوجوانوں کوعملاً مذہب سے دور کردیا ہے۔ اور دن بدن مذہب سے دوری اختیار کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔

قرآن میں کہا گیا ہے : وَقُلْ لَهُمْ فِي أَنْفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا (4:63)۔ یعنی اور ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر جائے۔ قرآن کی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ بات ایسے اسلوب میں کہو جس سے مخاطب کا ذہن ایڈریس ہو۔اس قرآنی ہدایت کے مطابق ظاہری اعتبار سے دعوت کے مختلف اسلوب ہوسکتے ہیں۔ اسلوب ہمیشہ مخاطب کے اعتبار سے متعین ہوگا۔ پہلے مخاطب کا مطالعہ کیا جائے گا، اور پھر اس کے ذہن کے اعتبار سے ایسا اسلوب اختیار کیا جائے گا جواس کے ذہن کو اپیل کرنے والا ہو۔ داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس اعتبار سے تیار کرے کہ وہ مدعو کو وقت کے اسلوب میں خدا کا پیغام پہنچا سکے، جس سے اس کا ذہن ایڈریس ہو۔جس دعوتی کلام میں یہ صفت نہ ہو، وہ گویا ایسی دعوت ہے، جس میں دعوتی تقاضے موجود نہیں ۔

ماڈرن مائنڈ کو ایڈریس کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جو بات کہی جائے، وہ عقل پر مبنی (reason-based) ہو۔ یعنی ایسا اسلوب اختیار کرنا ، جو لوگوں کے لیے عقلی سطح پر دین کو قابل فہم بنائے۔ یہ زمانہ عقلی تفہیم و تبیین کا زمانہ ہے۔ کوئی اور اسلوب آج کے انسان کے لیے مؤثر نہیں ہوسکتا۔ عقلی دلائل کی روشنی میں باتوں کو سمجھانے کا طریقہ کیا ہوتا ہے، اسکی تفصیل کے لیے راقم الحروف کی کتاب اظہارِ دین کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom