حکمت کا طریقہ
17 جو ن 2019 کو مصر کے سابق منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کا حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال ہوگیا۔ بوقت وفات ان کی عمر67سال تھی۔ میڈیا کے مطابق محمد مرسی ایک کیس کی سماعت کے موقع پر عدالت کے کمرہ میں موجود تھے، جیسے ہی عدالتی کارروائی ختم ہوئی وہ بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ اُنہیں فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا تاہم وہ راستہ ہی میں انتقال کرگئے۔
ڈاکٹر محمد مرسی 30 جون 2012کو مصر کے صدر منتخب ہوئے۔ پھر فوج سے ان کا اختلاف پیدا ہوا۔اسکائی نیوز عربیہ کی 26 جون 2013 کی رپورٹ کے مطابق ، انھوں نے ایک تقریر میں خود یہ کہا تھا: اصبت احیانا، و اخطات احیانا اخریٰ (کبھی میں نے درست کام کیا، اور کبھی میں نے غلطی کی)۔
یہ تقریریوٹیوب پر ڈاکٹر محمد مرسی کی اپنی آواز میں عربی زبان میں موجود ہے، جب کہ وہ صدارت کی کرسی پر موجود تھے۔اس کے بعدصدر محمد مرسی اور ان کے مخالفین کے درمیان ٹکراؤ کےواقعات پیش آئے، اس کا کلمینیشن(culmination) اس طرح ہوا کہ 3 جولائی 2013 کو فوج نےان کی حکومت ختم کردی۔ ڈاکٹرمحمد مرسی کے خلاف اس کے بعد لمبے عرصے تک عدالت میں مقدمہ چلتا رہا۔اسی مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت میں وہ حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال کر گئے۔
اس معاملے میں حکمت کا تقاضا ہے کہ سب سے پہلے یہ دریافت کیا جائے کہ وہ غلطی کیا تھی، جو خود اپنے اعتراف کے مطابق، صدر ڈاکٹر محمد مرسی سے سرزد ہوئی ۔ اس لیے کہ ڈاکٹر مرسی جمہوری نظام کے صدر تھے۔ جمہوری نظام میں ایک رولنگ پارٹی ہوتی ہے، اور دوسری اپوزیشن پارٹی۔ جمہوری نظام میں غلطی کرنا بے حد نازک (risky) ہوتا ہے۔ کیوں کہ اپوزیشن پارٹی فوراً اس کو اپنے حق میں استعمال کرتی ہے۔ جمہوری نظام میں غلطی کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ جمہوری نظام میں اگر حکومت کا کوئی فرد غلطی کرے تو یہ ناممکن ہوتا ہے کہ اس کےانجام سے وہ اپنے کو بچا سکے۔ اسی لیے جمہوری نظام میں صاحبِ اقتدار غلطی کرنے کے بعد اکثر استعفیٰ دے کر حکومت سے الگ ہوجاتا ہے۔ اس قسم کا استعفیٰ گویا صاحبِ اقتدار کے لیےچھوٹی برائی (lesser evil) کو اختیار کرنےکے ہم معنی ہوتا ہے۔
اس معاملے میں غلطی کا اعتراف کرنے کے بعد ڈاکٹر مرسی کو جو پہلا کام کرنا تھا، وہ یہ تھا کہ وہ اپنی غلطی کے انجام سے بچنے کی تدبیر کریں۔ جمہوری نظام میں اس طرح کی غلطی کرنے کے بعد صرف دوسرے کو الزام دینا کافی نہیں ہوتا، بلکہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ غلطی کی نوعیت کو سمجھا جائے، اور جمہوری روایات، اور قانونی تقاضے کی روشنی میں اس کا حل دریافت کیا جائے۔
اب جب کہ یہ واقعہ ہوچکا ہے تو ڈاکٹر محمد مرسی کے حامیوں کو یہ کام انجام دینا چاہیے۔ دوبارہ ان کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ فوجیوں کو بُرا بھلا کہیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے، تو وہ یہ دریافت نہ کرپائیں گے کہ غلطی کہاں ہوئی، اور جمہوری نظام یا قانونی نظام کے دائرے میں اس کا حل کیا ہے۔