حج بدل کا مسئلہ
جمہور فقہاء کی رائے ہے کہ جو شخص مر جائے اور اس پر حج فرض رہا ہو تو اس کے وارث پر واجب ہے کہ میت کی طرف سے حج کرے یا اس کی طرف سے کسی کو حج کروائے، خواہ مرےہوئے شخص نے حج کی وصیت کی ہو یا وصیت نہ کی ہو۔ امام مالک کا قول ہے کہ میت کی طرف سے حج اس وقت ضروری ہے جب کہ اس نے وصیت کی ہو، ورنہ نہیں۔ کیوں کہ حج ان کے نزدیک بدنی عبادت ہے، اس میں نیابت نہیں ( جمھور الفقھاء یریٰ ان من مات و علیہ حجۃ الاسلام وجب علیٰ ولیہ ان یحج عنہ او یجھز من یحج عنہ من مالہ، سواء اوصیٰ المیت بالحج ام لم یوص۔ وقال الامام مالک، یجب الحج عن المیت ان کان قد اوصیٰ بذٰلک۔ اما اذا لم یوص بالحج فلا یجب الحج عنہ۔ لان الحج عندہ عبادۃ بدنیۃ لا تقبل النیابۃ)۔
اس مسئلہ کی بنیاد صحیح البخاری کی ایک روایت پر ہے، جس میں ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ میری ماں نے حج کی نذر کی تھی۔ مگر وہ حج کیے بغیر مرگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں۔ آپ نے فرمایا :ہاں (إِنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ، فَلَمْ تَحُجَّ حَتَّى مَاتَتْ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، حُجِّي عَنْهَا)صحیح البخاری، حدیث نمبر 1852۔ اس حدیث میں اس آدمی کا ذکر ہے جس نے اُس اعتبار سےحج کی نیت کر رکھی ہو، جس میں حج فرض ہوجاتا ہے، مثلاً نذر ماننا، وغیرہ۔ مگر ادائیگی سے پہلے اس کی وفات ہو گئی۔ دوسری ایسی کوئی روایت نہیں جس میں میت کی طرف سے عمومی طور پر حج کی ادائیگی کی ہدایت کی گئی ہو۔
میرے نزدیک اس معاملہ میں امام مالک کا مسلک صحیح ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ صرف مالی قرض ایک ایسی چیز ہے جس میں استثنائی طور پر یہ حکم ہے کہ میت کی طرف سے ہر حال میں اس کو ادا کیا جائے۔ عبادتی امور میں صرف نیت کا اعتبار کیا جائے گا۔ بخاری کی مذکورہ روایت میں دَین (قرض) کا لفظ ہے، مگر وہ مجازی معنی میں ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں۔ اس سے مالی قرض پر قیاس نہیں کیا جا سکتا (ڈائری، 22 ستمبر 1983)۔