دور ِ مواقع
راقم الحروف نے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ دوسری قوموں سے ٹکراؤ کا راستہ اختیار کرنے کے بجائےصبر کا طریقہ اختیار کریں۔ اس بنا پر بہت سے لوگ ہمارے بارے میں یہ کہتے تھے کہ وہ تو بزدلی کی تعلیم دیتے ہیں۔ وہ ہمارے بارے میں یہ الزام تراشی کرتے تھے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ مخالفین کے سامنے سر کو جھکا دو۔ اس طرح کی باتیں ایک عرصے تک کہی جاتی رہیں، مگر ہم نے اس طرح کے پروپیگنڈے کے جواب میں کچھ بھی نہیں کہا۔ ہم نے وہی طریقہ اختیار کیا، جو مشہور اردو شاعر حالی (1837-1915)نے کہا ہے:
کیا پوچھتے ہو کیونکر سب نکتہ چیں ہوئے چپ سب کچھ کہا انہوں نے پر ہم نے دم نہ مارا
یہاں تک کہ ان میں سے کچھ لوگوں کے اوپر سچائی واضح ہوئی، انھوں نے اپنے جرائد میں ہماری باتیں چھاپنا شروع کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی صبر ہے۔ صبر حکمت ہے، صبر مثبت نفسیات ہے۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں،قدیم دور کے برعکس، جنگ کو انتہائی ناپسندیدہ عمل قرار دے دیا گیا ہے۔ اس دور میں اختلاف کو ختم کرنے کا ذریعہ ڈائلاگ ہے، ٹکراؤ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدیم دور میں مواقع پر صرف حکمراں طبقےکی اجارہ داری (monopoly)ہوا کرتی تھی۔ اس کے برعکس، موجودہ زمانہ مواقع کے انفجار (opportunity explosion)کا زمانہ ہے۔ جدید دور کا نارم (norm) ہے — ہر موقع ہر ایک کے لیے ۔
اس دوسرےدور میں دعوتِ اسلامی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ مواقع کے انفجار کا یہ دور ایک داعی کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ ٹکراؤ کے بجائے صبر کا طریقہ اختیار کرکے لوگوں تک خدا کا پیغام پہنچائے۔ قرآن کے مطابق، موجودہ دنیا میں پرابلم بھی ہیں، اور اسی کے ساتھ مواقع بھی (94:5)۔ مسائل انسان کی پیداوار ہیں۔ اس کے مقابلے میں مواقع خالق کا عطیہ ہیں۔ آپ اس معاملے میں مثبت ذہن پیدا کیجیے، آپ مسائل کو نظر انداز کیجیے،اور صبر کا طریقہ اختیار کرکے مواقع کو تلاش کیجیے ، اوران کو اویل کیجیے۔