کمزور پوائنٹ
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:لَمَّا صَوَّرَ اللهُ آدَمَ فِي الْجَنَّةِ تَرَكَهُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَتْرُكَهُ، فَجَعَلَ إِبْلِيسُ يُطِيفُ بِهِ، يَنْظُرُ مَا هُوَ، فَلَمَّا رَآهُ أَجْوَفَ عَرَفَ أَنَّهُ خُلِقَ خَلْقًا لَا يَتَمَالَكُ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 6815)۔ یعنی جب اللہ نے جنت میں انسان کی ساخت بنائی تو اللہ نے اس کو ایک مدت کے لیے وہاں باقی رکھا۔ پھر ابلیس آیا۔ وہ آدم کے چاروں طرف گھومنے لگا ، یعنی دیکھنے لگا کہ وہ کیا ہے۔ پھر اس نے دیکھا کہ وہ اجوف (hollow) ہے۔ اس نے جان لیا کہ آدم کی تخلیق اِس طرح ہوئی ہے کہ اس کے اندر تمالک کی صفت نہیں۔
لَا يَتَمَالَكُ کا مطلب ہے اپنی خواہشات اور جذبات پر کنٹرول نہ کرپانا (لَا يَمْلِكُ نَفْسَهُ وَيَحْبِسُهَا عَنِ الشَّهَوَاتِ)۔انسان کے اندر تمالک کی صفت کیوں نہیں ہے۔ کیوں کہ انسان کے اندر انا(ego)کا جذبہ بہت زیادہ طاقت ور ہے۔ یہ انسان کا ایک ویک پوائنٹ ہے۔یہ جذبہ انسان کی ساری سرگرمیوں میں کام کرتا ہے۔ایگو کے فتنے کا سب سے زیادہ مہلک پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے ہر عمل کا ایک جواز (justification) تلاش کرلیتا ہے۔ وہ غلط کام بھی کرتا ہے تو اس کا ایک مبرر (justified reason) اس کے پاس ہوتا ہے۔ وہ غلط کام کو اس یقین کے ساتھ کرتا ہےکہ وہ ایک درست کام ہے۔ یہ ایک خود فریبی کی بدترین صورت ہے۔ یہ اَنا کا جذبہ ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے خلاف بات پر بھڑک اٹھتا ہے، اور انتقام (revenge) کے درپے ہو جاتا ہے۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ فطرت کے واقعات سے ہمیشہ پازیٹیو سبق لے،یعنی مبنی بر معرفت سبق۔ منفی سبق لینا فطرت کے نظام کے مطابق نہیں۔ بلاشبہ انسان کے لیے سب سے بڑی تباہ کن بات یہ ہے کہ وہ انا(ego) کا شکار ہوجائے۔ خدا کی معرفت اپنی صحیح صورت میں اس کا روک ہے۔ خدا کی معرفت واحد طاقت ور محرک ہے، جو انسان کو ایگوئسٹ بننے سے بچاتا ہے۔ خدا کی معرفت کے بغیر کوئی انسان ایگو کے فتنے سے بچ نہیں سکتا۔ایگو ئسٹ آدمی ضمیر کی بات نہیں سنے گا، لیکن جو آدمی معرفت کے معاملے میں سنجیدہ ہو، وہ ضروراس کو سنے گا۔