آیتِ امید
قرآن کی ایک آیت کو آیت ِ امید کہا جاتا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بخشنے والا، مہربان ہے۔
قرآن کی یہ آیت دوسری آیتوں سے بظاہر ایک ڈفرنٹ آیت ہے۔ اس قسم کی دوسری آیتوں میں عام طو رپر یہ ہوتا ہے کہ آدمی اگر اپنے گناہ سے توبہ کرے اور اللہ سے معافی مانگے تو امید ہے کہ اس کی بخشش ہوجائے گی۔ مگر اس آیت میں اس قسم کے الفاظ نہیں ہیں۔ قرآن کی اس آیت میں صرف یہ ہے کہ گناہ گار آدمی کو چاہیے کہ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ کیوں کہ اللہ اتنا زیادہ رحیم و کریم ہے کہ وہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔
اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ اللہ تمام گناہوں کو معاف کرسکتا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس عام معافی کے ساتھ توبہ اور طلبِ عفو کا کوئی ذکر نہیں۔ گویا کہ اگر آدمی کے اندر اللہ کی رحمت پر سچا یقین ہو تو اللہ کی رحمت خود ہی متحرک ہوجائے گی، اور وہ بندے کے تمام گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنے گی۔ اللہ کی رحمت پر اگر بندے کے اندر کامل یقین ہے تو اس کا یقین اپنے آپ معافی کی سفارش بن جائے گا۔ اور بندے کے تمام گناہوں کو معاف کرکے اس کے لیے جنت مقدر کردی جائے گی۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عدم قنوط(مایوس نہ ہونا) ایک ایسا عمل ہے، جس کی وجہ سے انسان کو خدا کی رحمت مل سکتی ہے۔یعنی انسان کے اندر کامل معنی میں عدم قنوط ہو تو اللہ کی رحمت کا تقاضا ہوگا کہ لفظی اظہار کے بغیر اس کے لیے گناہ سے معافی کا ذریعہ بن جائے۔آیت کا یہ انداز اتنا زیادہ رحمت سے بھرا ہوا ہے کہ اکثر علما نے یہ مانا ہے کہ قرآن کی یہ آیت سب سے زیادہ پرامید آیت ہے (أَرْجَى آيَةٍ فِي الْقُرْآنِ )۔ گویا اللہ کی رحمت سے مایوسی سب سے بڑی خطا ہے، اور اللہ کی رحمت پر یقین سب سے بڑا عمل۔