دور کو جانیے
قدیم زمانے میں قبائلی حالات کی بنا پر دنیا میں جنگ کلچر کارواج تھا۔ موجودہ زمانے میں یہ ممکن ہوگیا ہے کہ امن کے ذریعے آسانی کے ساتھ چیزوں کو حاصل کیا جاسکے۔قدیم زمانے میں انسان یہ سمجھتا تھا کہ اس کو جو کچھ بھی ملے گا، وہ "تلوار" کے ذریعے ملے گا۔ چنانچہ کہا جاتا تھا— ہر کہ شمشیر زند سکہ بنامش خوانند (جو تلوار کا ماہر ہوتا ہے، اسی کے نام کا سکہ چلتا ہے)۔موجودہ زمانہ اس کے برعکس ہے، موجودہ زمانہ ٹکراؤ کے بجائے گفتگو کی میز پر نزاع کو حل کرنے کا زمانہ ہے۔ قدیم زمانےمیں جنگ کلچر کو فروغ حاصل تھا، موجودہ زمانے میں امن کو خیر اعلیٰ (summum bonum) کی حیثیت حاصل ہے۔ جدیددور میں گفت و شنید (negotiation) کے ذریعے چیزوں کو حاصل کرنا ممکن ہوگیا ہے۔
جو ممالک اس فرق کو سمجھتے ہیں، انھوں نے عملاً اپنے یہاں جنگ کلچر کو ترک کرکے امن کلچر کو فروغ دیا ۔ اس فرق کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ یہ ممالک دورِ جنگ سے نکل کر دورِ امن میں داخل ہو گئے ہیں۔ جن قوموں کو ترقی یافتہ قومیں کہا جاتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے تعلیم یافتہ قومیں ہیں۔ چنانچہ ان قوموں نے اپنی تمام سرگرمیوں کو تعلیم رخی سرگرمی بنا دیا ہے۔ اب ترقی یافتہ دنیا میں سب سے زیادہ اہمیت تعلیم کو دی جاتی ہے۔ تعلیم سے مراد ہے جدید تعلیم، نہ کہ روایتی تعلیم۔
اس معاملے میں غالباً ایک ہی استثنا ہے، اور یہ استثنا مسلم قوم کا ہے۔ مسلمان آج بھی مسلح ٹکراؤ کی بات کرتے ہیں۔ حالاں کہ اب اس کا دور ختم ہوچکا ہے۔ اب یہ کرنا ہے کہ تعلیم اور تجارت کے مواقع کو تلاش کیا جائے، اور اس کو منصوبہ بندی کے ذریعے اویل کیا جائے۔ آج کل مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے ایک لفظ بہت بولتے ہیں۔ وہ لفظ ہے، مسلم ایمپاورمنٹ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں پہلا کام یہ ہے کہ مسلمان قدیم روایتی طرز فکر کو چھوڑیں، اور جدید تہذیب سے سبق لے کر نئے حالات کے مطابق ،اپنے قومی نشانے کی از سرِ نو منصوبہ بندی کریں۔ مسلمانوں کی کامیابی جدید دور کی دریافت پر موقوف ہے، نہ کہ جدید دور کو اپنا حریف سمجھ کر اس سے ٹکراؤ کرنے پر۔