خدا امید کا خزانہ
موجودہ دور میں مسلمان مختلف قسم کی پریشانیوں کی شکایت کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں خدا سے امید رکھنے کے حوالے سے متعدد واقعات بیان کیے گئے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اگر مشکلات میں خدا پراپنےاعتماد کو مضبوط رکھے تو اس کی پریشانیاں حل ہوسکتی ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ صبر اورتقویٰ کا طریقہ اختیار کرے اور مثبت سوچ کی بنیاد پر اپنی پلاننگ کرے، جیسا کہ ذیل کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے عراق میں پیدا ہوئے اور 175 سال کی عمر پا کر اُن کی وفات ہوئی۔ان کا واقعہ ہے۔ جب وہ اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو اس مقام پر چھوڑ کر جانے لگے جہاں آج مکہ آباد ہے تو ہاجرہ نے کہا کہ اے ابراہیم! ہم کو اس صحرا میں چھوڑ کر آپ کہاں جارہے ہیں، جہاں نہ کوئی انسان ہے اور نہ کوئی اور چیز؟" پھرہاجرہ نے ابراہیم سے پوچھا کہ "کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟" ابراہیم نے کہا کہ "ہاں"۔ ہاجرہ نے کہا "پھر تو اللہ ہم کوضائع نہیں کرے گا" (إذن لا یُضَیِّعُنَا) صحیح البخاری، حدیث نمبر 3364۔اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ مکہ آباد ہو، اور وہ نسل ظہور میں آئے جس میں رسول اور اصحابِ رسول پیدا ہوئے،جن کے ذریعہ دنیا میں اسلام کا انقلاب برپا ہوا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ تیرھویں صدی قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ وہ قدیم مصر میں آئے۔ اس وقت وہاں فرعون (Pharaoh) کی حکومت تھی۔ بنی اسرائیل کو فرعون نے غلام بنا رکھا تھا۔ جب پیغمبر موسیٰ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے تو فرعون نے اپنی فوج کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ حضرت موسیٰ اپنی قوم کے ساتھ ایسے مقام پر پہنچے جہاں سامنے بحر احمر تھا، اور پیچھےفرعون کا لشکر۔ یہ انتہائی خطرناک صورتِ حال تھی۔ اس نازک موقع پر بنی اسرائیل اور موسیٰ کی جو کیفیت تھی، اس کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:فَلَمَّا تَرَٰٓءَا ٱلۡجَمۡعَانِ قَالَ أَصۡحَٰبُ مُوسَىٰٓ إِنَّا لَمُدۡرَكُونَ ۔ قَالَ كَلَّآۖ إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهۡدِينِ(26:61-62)۔ یعنی، پھر جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم تو پکڑے گئے۔ موسیٰ نے کہا کہ ہرگز نہیں، بےشک میرا رب میرے ساتھ ہے۔ وہ مجھ کو راہ بتائے گا۔ چنانچہ اللہ نے ان کی مدد کی، اور فرعون اپنے لشکر سمیت غرق ہوگیا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ ہے۔ 622ء میں آپ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ یہ ایک بے حد خطرناک سفر تھا۔ اس سفر کے دوران آپ کوغار ثور میں چھپنا پڑا ۔ آپ کے مخالفین جو آپ کی تلاش میں نکلے تھے ، وہ تلوار لیے ہوئے غار کے منہ تک پہنچ گئے۔ اس وقت آپ کے واحد ساتھی ابوبکر صدیق تھے۔انہوں نے یہ منظر دیکھا تو کہا کہ اے خدا کے رسول، وہ تو یہاں بھی پہنچ گئے۔ اس کے جواب میں آپ نے جو کہا، اس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:لَا تَحْزَنْ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَنَا(9:40) ۔یعنی غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اس واقعے کو حضرت ابوبکر صدیق نے اس طرح روایت کیا ہے ۔ آپ نے کہا: ان دو کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے، جس کا تیسرا اللہ ہو (مَا ظَنُّك بِاثْنَيْنِ اللهُ ثَالِثُهُمَا) صحیح البخاری، حدیث نمبر 4663۔اس ایمان و یقین کے سفر کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ مدینہ کے ذریعہ ساری دنیا میں اسلام پھیلے— خدا پر یقین آدمی کی داخلی قوتوں کو متحرک کر کے ایک بے حوصلہ انسان کو تخلیقی انسان بنا دیتا ہے۔ (ڈاکٹر فریدہ خانم)
4 جولائی (1990) کو عید الاضحی کی نماز میں نے تبلیغی جماعت کی مسجد میں پڑھی۔ وہاں انسانوں کا ہجوم تھا۔وہاں کے ماحول کو دیکھ کر ایک بات ذہن میں آئی۔دین کے دو پہلو ہیں۔ ایک معنیٰ کے اعتبار سے، اور دوسرا شکل کے اعتبار سے۔ دین کے ان دونوں پہلوؤں کا تسلسل امت میں جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ قیامت آ جائے۔ میرا احساس یہ ہے کہ تبلیغی تحریک، موجودہ زمانہ میں، دین کے شکلی پہلو کا تسلسل ہے، اور الرسالہ کا مشن دین کے معنوی پہلو کا تسلسل۔ تبلیغ کے لوگ اس تقسیم کو ہرگز نہیں مانیں گے۔ مگر میرے نزدیک حقیقت واقعہ یہی ہے (مولانا وحیدالدین خاں، ڈائری، 6جولائی 1990)۔