جنت کا شوق
قرآن کے مطالعہ کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ اس کے یونیورسل پیغام کو پرسنلائز کرکے قرآن سے سبق حاصل کریں۔ میں نے قرآن کا مطالعہ کیا تو مجھے یہ سمجھ میں آیا کہ قرآن میں جنت کو حاصل کرنے کے لیے بار بار ابھارا گیا ہے۔ مثلاً قرآن کی ایک آیت یہ ہے:(ترجمہ)دوڑو اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین جیسی ہے۔ وہ تیار کی گئی ہے اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے (3:133)۔
اس آیت کو میں نے اپنے ایک تجربہ سے سمجھا۔ ایک دن کا واقعہ ہے۔ میں صبح کے وقت کام کررہی تھی تو مجھے تکان کا احساس ہوا۔ پھر میں نے یہ سوچا کہ اب میری عمر 60 سال سے زیادہ ہوچکی ہے، جو کہ عمومی طور پر زندگی کے آخری مرحلہ کی ابتداسمجھا جاتا ہے۔ گویا اب میری زندگی بہت مختصر ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ موت کے بعد لامحدود زندگی ملنے والی ہے۔پھر میں نے سوچا کہ اگر میری زندگی کے صرف دس سال ہیں تو مجھے ان دس سالوں تک بہت زیادہ متحرک رہنا چاہیے تاکہ ابدی جنت کے لیے مزید سرمایہ اکٹھا کرسکوں۔ مجھے ابدی جنت کے تصور سے ایک محرکِ عمل ( incentive) ملا اور میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ مجھے وقت کو غنیمت جاننا ہے اور مرنے سے پہلےاس ربانی مشن کے سارے کام مکمل کرنے ہیں۔ اس سوچ نے مجھےایک نئی توانائی دی،اور میری تکان ختم ہوگئی۔ میری سمجھ میں آیا کہ یہی ہے جنت کی طرف مسارعت (دوڑنا)۔ یعنی جنت کی یاد آپ کو دنیا کی مشکلات بھلادے، اور آپ دوبارہ ایک نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ خدائی مشن میں مصروف ہوجائیں۔
مولانا وحید الدین خاں صاحب نے لکھا ہے کہ جنت انسان کے لیے بنائی گئی ہے، اور انسان جنت کے لیے۔ مگر جنت اس انسان کو ملے گی، جو اپنے آپ کو اس دنیا کے اندر جنت کے لیے جینےوالا انسان بنائے۔ خدا اُس انسان کے زندہ شعور کا حصہ بن جائے۔ دنیا کی ہر چیز اس کو خدا کی یاد دلانے والی بن جائے، اور وہ انسانوں کے درمیان خدا کا داعی بن جائے۔جنت اس انسان کے لیے ہے جو صرف ایک خدا کو اپنا سپریم کنسرن بنالے (ماخوذ، ماہنامہ الرسالہ، ستمبر 2019)۔ڈاکٹر فریدہ خانم