آدم اور ابلیس کا سبق
آدم و ابلیس کا قصہ قرآن میں کئی بار بیان کیا گیا ہے۔مثلاً سوره البقرة ، 2:30-38، سورہ الاعراف، 7:11-25، سورہ الحجر، 15:26-43وغیرہ۔ اس قصے کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے آدم کو پیدا کرکے فرشتہ اور ابلیس کو اسے سجدہ کرنے کے لیے کہا۔فرشتوں نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ وہ نقصان میں رہا۔
ابلیس کا معاملہ یہ تھا کہ وہ ایک فرمانبردار مخلوق تھا، لیکن ایک موقع آیا جب کہ اس کے لیے پریکٹکل وزڈم یہ تھا کہ وہ ایک نئی مخلوق ،آدم کے سامنے خدا کے حکم کے مطابق جھک جائے۔ مگر وہ اپنے ماضی کی عظمت میں گم رہا کہ وہ نئی مخلوق کے مقابلے میں ایک برتر مخلوق ہے (الاعراف، 7:12)۔ اس نے اپنے مفروضہ عظمت کی بنا پر سرکشی (stubbornness) کا طریقہ اختیار کیا، اور پریکٹکل وزڈم کو قبول نہ کرسکا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہمیشہ کے لیے خدا کی نظر میں ناپسندیدہ قرار پایا۔اس کے برعکس، فرشتوں نے پریکٹکل وزڈم کو دو مرتبہ قبول کر لیا۔ ایک بار جب کہ انھوں نے یہ کہا کہ نئی مخلوق زمین میں فساد پیدا کرے گی۔ اللہ نے جب وضاحت کی تو انھوں نے اس کو قبول کرلیا۔ دوسری مرتبہ جب اللہ نے ان سے کہا کہ وہ آدم کے آگے سجدہ کریں۔ اس مرتبہ بھی انھوں نے خدا کی بات مان لی۔ دوسرے الفاظ میں انھوں نے بدلے ہوئے حالات کو ایکسپٹ (accept) کیا، انھوں نے ابلیس کی مانند عذر (excuse)کا طریقہ اختیار کرکے خدا کے پیدا کیے ہوئے حالات سے ٹکراؤ کا راستہ نہیں چنا۔
یہ حقیقت میں اللہ کی جانب سے انسان کو سبق ہے کہ نئی صورت حال پیش آنے پر تمھارا رویہ ابلیس کی طرح کٹر پن (rigidity) اور تنگ نظری (narrow-mindedness) کا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اپنے رویے میں لچک (flexibility) رکھو، صورت حال کو سمجھو، اور اسے قبول کرو۔ اگر تم ایسا نہیں کروگے تو تم ابلیس کی طرح نقصان میں رہوگے۔ دوسرے الفاظ میں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ تم یہ مت دیکھو کہ ماضی میں تم کیا تھے، بلکہ یہ دیکھو کہ وقت کا پریکٹکل وزڈم کیا ہے، اور اس کو اختیار کرو۔