وقت کا ضیاع
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا (4:114)۔ یعنی ان کی اکثر سرگوشیوں میں کوئی بھلائی نہیں۔ بھلائی والی سرگوشی صرف اس کی ہے جو صدقہ کرنے کو کہے یا کسی نیک کام کے لیے کہے یا لوگوں میں صلح کرانے کے لیے کہے۔ جو شخص اللہ کی خوشی کے لیے ایسا کرے تو ہم اس کو بڑا اجر عطا کریں گے۔
نجویٰ کا مطلب ہے سرگوشی (whisper) کے انداز میں بات کرنا۔ لیکن یہ آیت اپنے عمومی اطلاق کے اعتبار سے ہر قسم کی گفتگو پر محیط ہے۔ عمومی اطلاق کے اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہے کہ بیشتر لوگ غیر ذمہ دارانہ باتیں کرتے ہیں، ان کی بات تقویٰ پر مبنی نہیں ہوتی۔ وہ سوچنے سے پہلے بولتے ہیں۔ وہ احساسِ ذمے داری کے بغیر کلام کرتے ہیں۔ ان کے سامنے صرف دنیا کے تقاضے ہوتے ہیں۔ وہ آخرت کے تقاضے کے تحت نہ سوچتے ہیں، اور نہ بولتے ہیں۔
خیر یا بھلائی صرف اس کلام میں ہے، جو ذمے داری (accountability)کے احساس سے بولاجائے۔ وہی کلام خیر کا کلام ہے، جس میں آدمی اس طرح بولے کہ وہ خدا کے اِس قانون کو یاد رکھے ہوئے ہو: إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ ۔ مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (50:17-18)۔یعنی، جب دو لینے والے لیتے رہتے ہیں جو کہ دائیں اور بائیں طرف بیٹھے ہیں۔ کوئی لفظ وہ نہیں بولتا مگر اس کے پاس ایک مستعد نگراں موجود ہے۔
کلام کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ہے ذمہ دارانہ کلام، اور دوسرا ہے غیر ذمہ دارانہ کلام۔ غیر ذمہ دارانہ کلام، بولنے والے کے لیے ایک وبال کی حیثیت رکھتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ زیادہ سوچے اور کم بولے۔ وہ انسان کے سامنے سوچنے سے پہلے یہ یاد کرے کہ وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ اللہ رب العالمین کے سامنے وہ اپنے آپ کو کھڑا ہوا پائے گا۔ اس کو بتانا ہوگا کہ وہ جب بولا تو کیوں بولا، جو بات اس نے کہی، تو اس بات کو کہنے کے لیے اس کے پاس جواز (justification) کیا تھا۔