دورِ حاضر کی تفسیر
موجودہ زمانے میں بہت سے لوگوں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ انھوں نے دورِ حاضر کے اعتبار سے قرآن کی تفسیر کی ہے۔ مگر یہ سب لوگ صرف دعویٰ کی زبان میں کلام کرتے رہے ہیں، واقعہ کی زبان میں کوئی شخص اپنی بات کا ثبوت نہ دے سکا۔ قرآن میں خودایسے اشارے موجود ہیں، جو یہ بتاتے ہیں کہ دورِ حاضر کی تفسیر کس نے بیان کی۔ مثلاً قرآن کی ایک آیت اس بارے میں پیشین گوئی کی حیثیت رکھتی ہے۔وہ آیت یہ ہے:سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (47:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔
اس آیت کے مطابق، آفاق و انفس میں آیات کی دریافت کے بعد قرآن کی ایک تفسیر مقدر تھی۔ اسی طرح قرآن میں ایسے کچھ اور بھی اشارے موجود ہیں، جس کے مطابق، دورِ مابعد میں کوئی تفسیر سامنے آنے والی ہے۔ مگر میرے علم کے مطابق، کوئی ایسی تفسیر نہیں، جو اس معیار پر فٹ بیٹھتی ہو۔ کچھ لوگوں نے دعوی کی زبان میں اس کا انطباق بتایا ، لیکن صراحت کے ساتھ اس سے کوئی بات ثابت نہیں ہوتی۔
مطالعے کے ذریعے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ مغربی تہذیب نے ایک نیا علمی دور پیدا کیا ہے۔ یہ مبنی بر سائنس دور ہے۔ اس نئے علمی دورکا وجود بلاشبہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ مثلاً اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ اس سے پہلے کوئی ایسا علمی دور ظہور میں نہیں آیا، جس نے دنیا کو کمپیوٹراور ہوائی جہاز جیسی چیز یںدی ہو۔ ایسی حالت میں یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ جس مفسر نے علم جدید کا مطالعہ کیا ہو، وہی وہ عالم ہوسکتا ہے، جو عصر حاضر کا مفسر قرآن قرار پائے۔ میرے علم کے مطابق، بہت سے لوگ ایسا گمان کرتے ہیں، لیکن ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہے تو وہ صرف دعوی کی زبان میں ہے، اور صرف دعوی کی زبان میں کسی چیز کو بیان کردینے سے کوئی بات ثابت نہیں ہوتی۔