دورِ جدید

پنڈت جواہر لال نہرو انڈیا کی ایک معروف شخصیت تھے۔ وہ 1947ء سے 1964ء تک انڈیا کے پرائم منسٹررہے۔جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا میں لکھا ہے کہ انڈیا میں سب سے زیادہ کمی جس چیز کی ہے، وہ ہے سائنٹفک ٹمپر(scientific temper)۔سائنٹفک ٹمپر کا مفہوم جواہر لال نہرو کے نزدیک یہ ہے کہ چیزوں میں غور و فکر کرنا، اور ان کو سوچ سمجھ کر دلیل کی بنیاد پر ماننا، نہ کہ صرف سن کر مان لینا:

The refusal to accept anything without testing and trial, the capacity to change previous conclusions in the face of new evidence, the reliance on observed fact and not on pre-conceived theory. (The Discovery of India, by Jawaharlal Nehru, Oxford, 1994, p. 512)

 دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب ہے ریشنل اور منطقی طرز فکر ڈیولپ کرنا: 

Scientific temper refers to an attitude of logical and rational thinking.

موجودہ زمانے کو ایج آف ریزن (age of reason)کہا جاتا ہے۔ ایج آف ریزن کا مطلب ہےآزاد یٔ فکر (free thought) کا دور یا فری انکوائری کا دور۔ ایج آف ریزن نے تاریخ میں پہلی بار سوچنے کی راہ میں تمام رکاوٹوں کاخاتمہ کردیا ۔ فری انکوائری میں ہر چیز جو رکاوٹ بنتی تھی، وہ سب ہٹ گئی۔ اس حقیقت کی طرف اس حدیث رسول میں اشارہ ہے:إِنَّ اللهَ لَيُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔ یعنی بیشک اللہ اس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے کرے گا۔ دور جدید کے اعتبار سے اس حدیثِ رسول کا مطلب یہ ہے کہ غیر مسلم، بشمول فاجر انسان (including the irreligious)کے ذریعے برپا کیے ہوئے سائنسی اور فکری انقلاب سے دین کی مدد ہوگی۔

سائنس اور تعقل پسندی (rationalism) دونوں اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ہیں۔ سائنس نے دراصل پہلی بار علمی غور وفکر کے لیے ایک ریلائبل فریم ورک (reliable framework)دیا، یعنی عقلی فریم ورک(rational framework)۔ سائنس کے دور سے پہلے انسان کے پاس آزادانہ فریم ورک (independent framework) نہیں تھا۔ علم کے ہر شعبے میں مذہبی اعتقاد کا غلبہ تھا، یعنی چیزوں کو صرف سن کرعقیدہ کے نام پر مان لینا۔ سائنس یا تعقل پسندی کا کنٹری بیوشن یہ ہے کہ اس نے انسان کو یہ راستہ دیا کہ وہ کسی چیز کو صرف سن کر نہ مان لے، بلکہ وہ اس کی تحقیق کرے، اور جب تحقیق میں وہ بات ثابت ہوجائے، تو دلیل کی بنیاد پر وہ اس کو مانے۔ اسلام اسی کی تعلیم دیتا ہے (الحجرات،49:6)۔ 

قدیم دور، جدید دور

 راکیش شرما (پیدائش 1949)پہلے ہندستانی خلاباز تھے، جنھوں نے 1984 میں چاند پر قدم رکھا تھا۔ اُن دنوں ہندستان میں یہ گفتگو کا موضوع بنا ہوا تھا۔ چنانچہ اس حوالے سےانڈیا کے انگریزی روزنامہ دی ٹائمس آف انڈیا (20اپریل 1984) میں ایک دلچسپ لطیفہ نقل کیا گیا تھا:

"Rakesh's journey into space" says the narrator, was tabled for discussion in our house. Every member of the family was expressing his or her opinion on the subject. Then my youngest daughter asked: "Dad, can I become the first Indian spacewoman?" "Yes dear" replied the grandmother, "you will be the first Indian spacewoman. I will consult Pandit Girdhar Vyas and see what is in store for you in your kundali." My eldest son, Arun, interjected. "Mom, you should consult the Russian leader, not astrologers."

 "خلا میں راکیش (شرما) کا سفر" گھر میں بحث کا موضوع بنا ہوا تھا۔گھر کا ہر فرد اس موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کر رہا تھا۔ ایک دن کھانے کی ٹیبل پر، جب کہ گھر کے سب لوگ جمع تھے، میری چھوٹی بیٹی نے پوچھا: "پاپا، کیا میں پہلی ہندوستانی خلاباز خاتون بن سکتی ہوں؟"

 دادی نے پیار سے جواب دیا، "یقیناًتم پہلی ہندوستانی خلابازخاتون بن سکتی ہو۔ اس سلسلہ میں میں پنڈت گرددھر ویاس کو تمھاری جنم پتری دکھا کر ان سے پوچھوں گی کہ تمھاری کنڈلی میں کیا لکھا ہوا ہے۔" یہ سن کر میرے بڑے بیٹے ارون نے مداخلت کرتے ہوئے کہا "دادی ماں، آپ کو روسی لیڈر سے مشورہ کرنا چاہیے، جوتشیوں سے نہیں۔"

یہ لطیفہ بتاتا ہے کہ وہ کیا فرق ہے، جو دورِ قدیم اور دورِ جدید کے درمیان ہے۔ قدیم زمانے میں علم نام تھا قیاسات کا، مگر موجودہ زمانے میں علم نام ہے مطالعہ اورتجربہ کے ذریعے دریافت شدہ حقیقت کا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا ایک تعلیم یافتہ نوجوان خلا (space) کے سفر کے معاملے کو جوتشی سے پوچھنے کے بجائے خلائی سائنس کے ماہرین سے پوچھنے پر زور دیتا ہے۔

جدید انسان کے سامنے اسلام کو پیش کرنے کے لیے اس فکری تبدیلی کا لحاظ کرنا بہت ضروری ہے۔ اسلام اگرچہ پوری طرح ایک سائنٹفک مذہب (scientific religion) ہے۔ مگر اس کو پیش کرنے والے، مذکورہ دادی ماں(grandmother) کی طرح، غیر سائنسی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ جوالزام حقیقۃً داعی کے سر آنا چاہیے تھا، وہ غیرضروری طور پر اسلام کے سر آجاتا ہے۔ 

فری انکوائری

 اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے میں انسان پہلے مذہب یا سماجی روایت کے ٹریپ میں پھنسا ہوا تھا۔ ہر چیز مذہب کی چانچ پڑتال (scrutiny) میں چلی جاتی تھی۔جہاں ہر چیز کو جائز ناجائز، حلال و حرام کے فریم ورک میں دیکھا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کوئی فکری ترقی (intellectual development) نہیں ہوپاتا تھا۔ مگرسائنس نے ہر چیز کو فری انکوائری کا سبجکٹ بنا دیا۔مثلاً قدیم زمانے میں ایسا نہیں ہوتا تھا کہ کچھ اہل علم بیٹھیں، جن میں کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں شراب کی بوتل ہو، مگر مجلس کے لوگ اس کو نظر انداز کرکے کسی موضوع پر ڈسکشن کریں۔ مذہب میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سائنسی دور نے یہ کیا کہ ذاتی چیزیں انسان کا اپنا فعل ہے، اورحقائق (facts) ایک الگ چیز ہے۔اس کو کوئی بھی ڈسکور کرسکتا ہے، خواہ وہ ذاتی اعتبار سے کیسا بھی انسان ہو۔ 

مثلاً پہلے کوئی معیار(criterion) نہیں تھا ، جس کی بنیاد پر لڑائی کو بند کیا جائے۔ کیوں کہ قدیم زمانے میں لڑائیاں مذہب کے نام پر لڑی جاتی تھیں۔ اس وجہ سے وہ مقدس بنی ہوئی تھیں۔ اس تقدس کی وجہ سے مسلمانوں میں وہ جہاد بن گئی، اور عیسائیت میں اس کو کروسیڈس کا نام دیا گیا۔ اورجو آدمی اس کے لیےلڑ کر مرجائے، اس کو شہید کہتے تھے۔ تقدس کےاس تصور کی وجہ سے جنگ کی روک تھام نہیں ہوپاتی تھی۔

ریشنل ایج میں یہ ممکن ہوگیا کہ کسی بھی قسم کی پابندی کے بغیرچیزوں کی فری انکوائری کی جائے۔ ریشنل ایج کی وجہ سے یہ سوچ کمزور ہوگئی ہے کہ عقیدہ کی بنیاد پرکسی چیز کے حرام یا حلال ہونے کا فیصلہ کیا جائےگا۔ ریشنل ایج میں جو بات ہوئی، وہ یہی تھی کہ فری انکوائری کا حق انسا ن کو مل گیا۔ مثال کے طور پر قدیم دور میں مذہب کو فیصلہ کن حیثیت حاصل تھی، پھر مذہب کے نام پر بادشاہ اور مذہبی پیشوا کو فیصلہ کن حیثیت مل گئی۔ ان کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ قانون تھا۔اس وجہ سے جو بھی اختلاف کرتا، اس کی سزا موت تھی۔اس قسم کا محاورہ اسی دور کی ترجمانی کرتا ہے— جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔

دور جدید نے اس اجارہ داری (monopoly) کو ختم کردیاہے۔ اب ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اب فری انکوائری ہر انسان کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے۔

دورِ جدید کا ایک عطیہ

 یہ دور کیسے پیدا ہوا۔ کہاجاتا ہے کہ قدیم حجری دور (stone age) میں ایک بار دو آدمیوں کے درمیان کسی بات پر شدید اختلاف پیدا ہوگیا۔اختلاف یہاں تک بڑھا کہ دونوں کے درمیان لڑائی شروع ہوگئی۔ دونوںایک دوسرے کو پتھر مارنےلگے۔اسی سنگ باری کے درمیان ایک واقعہ پیش آیا۔ وہ یہ کہ ایک آدمی کا پتھر دوسرے آدمی کے پتھر سے ٹکرا گیا۔ اس وقت دونوں پتھروں کے درمیان چمک دکھائی دی۔ چمک دیکھ کر دونوں اپنی لڑائی بھول گئے، اور دونوں نے اپنے اپنے پتھروں کو لے کر سوچنا شروع کردیا کہ کہاں سے روشنی آئی۔ ابتدائی طور پر یہ دریافت ہوا کہ عام معنوںمیں یہ روشنی نہیں تھی، بلکہ دونوں پتھروں کے درمیان سے نکلنے والی وقتی چنگاری تھی۔

 اس سوچ کو بغیر کسی قید کے آگے بڑھنے کے لیے جس چیز کی ضرورت تھی، وہ فری انکوائری کا ماحول تھا۔ یہ فری انکوائری کا ماحول قدیم دور میں ممکن نہیں تھا، بلکہ اس کا آغاز جدید دور میں ہوا ہے۔ اس دور کو جمہوریت کا دور بھی کہا جاتا ہے۔ جمہوریت کا مطلب ہے دوسروں کو قبول کرنا:

Democracy means acceptance of others  .

اختلاف کا مسئلہ

دور جدید میں جن مثبت باتوں کا آغاز ہوا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اب بذریعہ تلوار اختلاف کو دور کرنے کا زمانہ ختم ہوچکاہے ، اور رائے کے اختلاف (dissent) کو رائے تک محدود رکھ کر نزاع (conflict) کو ختم کرنے کے دور کاآغاز ہوا ہے۔قدیم زمانے میں جب اختلاف پیدا ہوتا تھا، تواس کا خاتمہ صرف تلوار کے ذریعے ہوا کرتا تھا۔ قدیم عرب کا یہ محاورہ اسی حقیقت کی ترجمانی ہے— القَتْلُ اَنْفَی لِلْقَتْلِ (قتل، قتل کے لیے سب سےبڑاروک ہے)۔ مگر اب یہ فریم ورک (framework)بدل چکا ہے۔

 موجودہ دور میں اختلاف کے خاتمہ کا سپورٹنگ اسٹرکچر (supporting structure) بدل گیا ہے۔  اب عمومی تباہی کے ہتھیاروں (weapons of mass destruction) نے دونوں فریقوں کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ دونوں فریق اختلاف کا خاتمہ گفتگو کی میز پر کریں۔دو عالمی جنگ خصوصاً جاپان کی تباہی نے تمام دنیا کو اس سے روک دیا ہے کہ وہ اختلاف کا خاتمہ بذریعہ جنگ کریں:

 Weapons of Mass Destruction (WMD) do serve as a deterrent to a global conflict. The destructive capabilities of the WMD were on full display over Japan at the end of World War II, and no one wants to go through something like that again.

 اختلاف بذریعہ جنگ کا دوراب ختم ہوگیا ہے، اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ انسان کو "تلوار" کی بنیاد پر فیصلےکا بدل مل گیا ہے، اور وہ ہے ڈسنٹ(dissent)، یعنی اختلافِ رائے کو اعتدال کے دائرے میں رکھنا،اس کونفرت اور نزاع تک نہ پہنچنے دینا۔ انسان کی عقل نے یہ ریلائز (realize) کرلیا ہے کہ اختلافِ رائے کی بنیاد پرپیدا ہونے والے نزاع کوریزن کی سطح پرمینج کیا جاسکتا ہے۔ پہلے زمانے میں حالت یہ تھی کہ اختلاف کو بزور طاقت سختی کے ساتھ دبایا جاتا تھا۔یورپ کے حوالے سے اس کی تفصیل ڈریپر (وفات 1882ء)کی کتاب" معرکہ مذہب وسائنس" میں دیکھی جاسکتی ہے:

History of the Conflict Between Religion and Science, 1875, London, pp. 373

 مگر یہ صرف یورپ کا مسئلہ نہیں تھا، ساری دنیا میں یہی طریقہ رائج تھا۔ اس کے برعکس، موجودہ دورمیں بات چیت کی سطح پر اختلاف کا خاتمہ کیاجاتا ہے۔ یہ وہی دور ہے، جس کو ایک حدیثِ رسول میں "لا الہ الا اللہ کے ذریعہ قلعہ فتح کرنا" کہا گیا ہے (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2920)۔ یعنی پیس فل انداز میں ڈائلاگ کے ذریعہ اختلاف کو مینج کرکے مقصد حاصل کرنا۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom