سیکولرزم کیا ہے

سیکولرزم کے بارے میں منصفانہ رائے قائم کرنے کے لیے دو چیزوں میں فرق کرنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ ایک ہے سیکولر فلاسفی، اور دوسری چیز ہے سیکولرپالیسی۔ دونوں کے درمیان واضح فرق ہے۔ جو لوگ اِس فرق کو نہ سمجھیں، وہ سیکولرزم کے بارے میں صحیح رائے قائم نہیں کرسکتے۔

سیکولرفلاسفی ابتداء ً اُن لوگوں کے ذہن کی پیداوار تھی جو ملحدانہ سوچ کا شکار تھے۔ مگر بعد کو فلسفے سے الگ ہوکر سیکولرزم، جمہوری نظام کی عملی پالیسی بن گیا۔عملی پالیسی کی حیثیت سے اُس کا مطلب یہ تھا کہ— مذہبی اُمور کو لوگوں کی انفرادی آزادی کا معاملہ قرار دے دینا، اور مشترک مادّی مفادات کو اسٹیٹ کے دائرے کی چیز سمجھنا۔

قدیم زمانہ مذہبی جبر کا زمانہ تھا۔ موجودہ زمانے میں مذہبی آزادی کو لوگوں کا ایک ناقابلِ تنسیخ حق قرار دے دیا گیا ہے۔ سیکولر پالیسی دراصل لوگوں کی اِسی مذہبی آزادی کا ایک حصہ ہے۔ پہلے زمانے میں یہ طریقہ تھا کہ ایک مذہبی گروہ دوسرے مذہبی گروہ کو آزادی دینے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا۔ وہ ان کو مذہبی تعذیب(religious persecution) کا شکار بناتا تھا۔ جدید جمہوریت میں اِس کے برعکس، سیکولر پالیسی کو اختیار کیا گیا، یعنی مشترک مادی امور کو ریاست کے دائرے میں رکھنا اور مذہب اور کلچر کے معاملے میں لوگوں کو کامل آزادی عطا کرنا۔

ہر معاشرے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ وہاں امن کا ماحول ہو۔ امن کے بغیر کسی بھی قسم کی کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔ سیکولر زم ایک عملی پالیسی کی حیثیت سے قیامِ امن کی یہی تدبیر ہے۔ اِسی تدبیر نے موجودہ زمانے میں ترقی یافتہ ملکوں کو قدیم طرز کی مذہبی لڑائیوں سے بچایا ہے۔ چنانچہ انڈیا سے لے کر امریکا اور برطانیہ تک سیکولر اسٹیٹ کے اصول کو اختیار کیاگیا۔ اِس کا مطلب مذہبی مخالفت نہیں، بلکہ مذہبی عدم مداخلت ہے۔ چناں چہ اِن ملکوں میں ہر مذہبی گروہ کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ اِن ملکوں میں جو چیز ممنوع ہے، وہ صرف تشدد ہے، نہ کہ اپنے مذہب پر عمل۔

سیکولر زم کے معاملے میں جو لوگ منفی ذہن رکھتے ہیں، اُس کا سبب یہ ہے کہ وہ دو چیزوں میں فرق نہیں کرتے۔ وہ سیکولر فلاسفی اور سیکولر پالیسی، دونوں کو ایک کرکے دیکھتے ہیں۔ حالاں کہ اِس معاملے میں درست رائے قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا جائے۔

سیکولرزم کے بارے میں منفی ذہن رکھنے والے لوگ ایک اور غلط فہمی کا شکار ہیں۔ وہ سیکولر پالیسی کو صرف مشترک مادی امور تک محدود نہیں رکھتے، بلکہ وہ اس کو مذہبی مخالفت کے ہم معنیٰ سمجھ لیتے ہیں۔ حالاں کہ موجودہ زمانے میں سیکولر حکومت کا مطلب مخالفِ مذہب حکومت نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ حکومت مذہبی امور میں عدم مداخلت (non-interference) کی پالیسی کی پابند ہے۔ اِس معاملے میں ساری غلط فہمی اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ ان لوگوں نے عدم مداخلت کو مخالفت کے ہم معنیٰ سمجھ لیا۔

اِس معاملے کا ایک پہلو اور ہے۔ وہ یہ کہ مذہبی آزادی کے اصول میں بیک وقت دو قسم کی آزادی شامل ہے— مذہبی عمل اور مذہبی تبلیغ۔ موجودہ زمانے کے تمام سیکولر ملکوں میں یہ دونوں قسم کی آزادی لوگوں کو مکمل طورپر ملی ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مذہبی گروہ انفرادی طورپر اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے دوسرے مذہبی گروہوں کے درمیان اپنے مذہب کی پُرامن تبلیغ پوری طرح جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ آزادی اِس حد تک حقیقی ہے کہ اِن ملکوں میں بہت سے لوگ اپنا مذہب بدل لیتے ہیں اور ان پر حکومت کی طرف سے کوئی پابندی عائد نہیں کی جاتی ہے۔ مثلاً امریکا میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ امریکی، اسلامی مذہب کو اختیار کرتے ہیں۔

اس اعتبار سے دیکھیے تو سیکولر پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مذہبی گروہ بَر وقت انفرادی دائرے میں اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے یہ کوشش کرسکتا ہے کہ وہ دوسروں کے فکر اور عقیدے کو بدل سکے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom