عزت نفس
اکثر لوگ خود داری اور عزت نفس (self-respect) کی اصطلاح میں سوچتے ہیں۔ اس سوچ کے تحت وہ کئی بار ایسی روش اختیار کرتے ہیں، جو عملا تکبر (arrogance) کے ہم معنی ہوتی ہے۔ مگر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم کو اپنے عزت نفس کی خاطر ایسا کرنا ضروری ہے۔ ایسا نہ کرنے کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہوتا ہے کہ آدمی خود اپنی نگاہوں میں اپنے آپ کو ذلیل کرلے۔ مگر یہ سوچ ایک غیر حقیقی سوچ ہے۔
وہ چیز جس کو عزت نفس کہا جاتا ہے، وہ خود حاصل کردہ (self-attained) چیز نہیں ہے۔ بلکہ وہ دوسروں کی عطاکردہ (externally given) چیز ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی چیز جو آپ کو اسی وقت ملتی ہے، جب کہ دوسرے لوگ آپ کو دینے کے لیے تیار ہوں۔
ایسی حالت میں کوئی شخص اگر اپنی کسی روش کے ذریعہ عزت نفس حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ایک غیر حقیقی روش اختیار کرتا ہے۔ کیوں کہ جو چیز دوسروں سےملنے والی ہے،وہ آپ خود سے اپنے لیے حاصل نہیں کرسکتے۔ ایسا آدمی ایک عمل کرتا ہے، جو اس کے اپنے خیال کے مطابق عزت نفس کے لیے ہوتا ہے، مگروہ عمل دوسروں کی نظر میں تکبر (arrogance) بن جاتا ہے۔ آدمی بطور خود ایک ایسی چیز پانے کی کوشش کرتا ہے جو کسی کو صرف دوسروں سے ملتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے قانون کے مطابق، عزت (respect) کسی کو صرف تواضع (modesty ) کے ذریعہ ملتی ہے، کسی اور تدبیر کے ذریعہ نہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:من تواضع للہ رفعہ اللہ (حلیۃ الاولیاء 7/129 :)۔یعنی جو اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے، اس کو اللہ بلندی عطا کرتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون (law of nature) ہے، اور فطرت کا قانون کبھی کسی کے لیےبدلتا نہیں۔ اس دنیا میں کوئی چیز صرف فطرت کے قانون کی پیروی سے حاصل ہوتی ہے، نہ کہ خودساختہ طور پر۔