ملت کی اصلاح
قرآن کے مطابق، بعد کے زمانے میں جب ملتِ یہود کا زوال آیا تو اللہ نے ان کے اوپر طاقت ور بندے بھیج دیے (الاسراء :5)۔یہ واقعہ دوبار ہوا۔ ایک بار 586 ق، م میں بخت نصر (Nebuchadnezzar)تاجدار بابل ونینوا کے ہاتھوں، اور دوسری بار 70ء میں رومی شہنشاہ ٹائٹس (Titus) کے زمانہ میں۔ یہ گویا یہود کے لیے ڈائسپورا (diaspora) میں جانے کا زمانہ تھا۔ یہ یہود کے لیے عذاب یا غضب الٰہی کا معاملہ نہ تھا، یہ در اصل تنبیہ (warning)کا معاملہ تھا۔ یہ اس لیے تھا تاکہ یہود نصیحت پکڑیں اور اپنی اصلاح کریں۔
یہود کی زندگی میں یہ تنبیہی دور لمبی مدت تک جاری رہا۔ اس کے نتیجے میں یہود کے اندر مذہبی اصلاح تو نہیں آئی۔ کیوں کہ زوال کے دور میں انھوں نے جس قومی کلچر کو مذہب کےنام سے اختیار کر رکھا تھا۔ اسی کو وہ موسوی مذہب سمجھتےتھے۔ البتہ سیکولر معنی کے اعتبار سے ان کے اندر بہت بڑی تبدیلی آئی، اور انھوں نے امریکا و یورپ کے ملکوں میں سائنسی تعلیم حاصل کی، اور یہ جانا کہ دورِ جدید کیا ہے۔ یہاں تک کہ سیکولر معنوں میں وہ جدید معیار کے مطابق ایک ترقی یافتہ قوم بن گیے۔ یہود کی تاریخ کا یہ مثبت پہلو موجودہ اسرائیل میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔
موجودہ زمانے کے مسلمان بھی اسی تنزل کے دور سے گزر رہے ہیں، اور دوبارہ ان پر اسی طرح اللہ کی طرف سے تنبیہات آ رہی ہیں، جس طرح یہود کے اوپر آئی تھیں۔ موجودہ زمانہ میں جن چیز وں کو ’’اغیار کا ظلم‘‘ کہا جاتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اغیار کا ظلم نہیں ہے، بلکہ وہ اللہ کی طرف سے آنے والی تنبیہات ہیں۔ تاکہ مسلمان بیدار ہوں اور دوبارہ اصل دینِ اسلام کی طرف لوٹیں۔
لیکن عملاً دوسری بار بھی یہی ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کے اندر صحیح معنوں میں دینی بیداری نہیں آرہی ہے۔ کیوں کہ اس وقت ان کے اندر دین اسلام کے نام پر جو قومی کلچر رائج ہے، مسلمانوں نے اسی کو اصل دین محمدی سمجھ لیا ہے۔ اس بنا پر وہ اس کے اوپر شدت کے ساتھ قائم ہیں۔
مگر یہاں مسلمانوں کے ساتھ بھی وہی معاملہ پیش آرہا ہے، جو اس سے پہلے یہود کے ساتھ پیش آیا۔ یعنی ان تنبیہات کے بعد سیکولر بیداری۔ چناں چہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں یہ منظر دکھائی دے رہا ہے کہ وہ سیکولر تعلیم کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ وہ جدید دور میں ترقی یافتہ بننےکی کوشش کررہے ہیں۔ تاہم یہ صرف سیکولر معنی میں ہے۔ یعنی پروفیشنل تعلیم، سیکولر میدان میں ترقی، اور دورِ جدید میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش۔
یہ بات ہر جگہ کے مسلمانوں میں نظر آرہی ہے۔ اگر چہ یہ سیکولر احیاء یہود کےمقابلے میں بہت کم ہے۔ یہود موجودہ زمانے میں سیکولر پہلو سے پورے معنوں میں ایک ترقی یافتہ قوم (developed nation) بن چکے ہیں۔ جب کہ مسلمانوں نے ابھی تک اس راہ میں صرف اپنے سفر کا آغاز کیا ہے۔ دینی شعور کے اعتبار سے ابھی تک ان کے اندر کوئی قابل ذکر احیاء کا واقعہ پیش نہیں آیا۔ تاہم سیکولر اعتبار سے زمانی دباؤ کے نتیجے میں انھوں نے اپنا سفر شروع کردیا ہے، اگرچہ رفتار بہت سست ہے۔
اس معاملے میں اصل غلطی عام مسلمانوں کی نہیں ہے، بلکہ ان کے نام نہاد رہنماؤں کی ہے۔ ان کے رہنما مسلسل طور پر ایک الٹا کام کررہے ہیں۔ مسلمانوں کے اوپر جو تنبیہات آرہی ہیں، وہ اللہ کی طرف سے برائے اصلاح ہیں۔ لیکن مسلم رہنما اپنی بے شعوری کی بنا پر ان خدائی تنبیہات کو دوسری قوموں کے ظلم کے خانے میں ڈالے ہوئے ہیں۔
وہ اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ مسلمانوں کو یہ باور کرارہے ہیں کہ موجودہ زمانے کی غیر مسلم قومیں تمھاری دشمن ہوگئی ہیں۔ وہ تمھارے خلاف سازشیں کررہی ہیں۔ وہ تم کو ترقی کے راستے سے روکے ہوئے ہیں، وغیرہ۔اس معکوس رہنمائی کے اندر دوہرا نقصان پایا ہے۔ ایک طرف یہ کہ یہ رہنمائی مسلمانوں کے اندر اصلاح کا طاقت ور محرک پیدا ہونے میں مستقل رکاوٹ ہے، اور دوسری طرف یہ کہ وہ اللہ کے منصوبہ (scheme of things) میں خلل کے ہم معنی ہے۔
اس طرح یہ رہنما اللہ کے تخلیقی منصوبہ میں مداخلت (intervention) کے مجرم بن رہے ہیں۔یہ اللہ کی سنت ہے کہ جب کوئی امت تنزل کا شکار ہو تو اللہ کی طرف سے اس کے لیے شاک ٹریٹمنٹ کے طور پرتنبیہات آئیں۔ یہ تنبیہات اصلاح کے لیے ہوتی ہیں، لیکن جب ان تنبیہات کو ظلم یا سازش کا نام دیا جائے توان کی تاثیر عملاً ختم ہوجائے گی۔