اجتہاد کا معاملہ
اجتہاد کا مطلب یہ ہے کہ حالات بدلنے کے بعد ابتدائی حکم کی نئی تطبیق (new application) تلاش کی جائے۔ مثلاً جدید طرز کے صنعتی موزوں کے وجود میں آنے کے بعد اس پر قدیم طرز کے جراب کے حکم کو منطبق کرنا، وغیرہ۔
اجتہاد صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔ لیکن اس اندیشہ کی بنا پر کبھی اجتہاد کے عمل کو روکا نہیں جائے گا۔ صرف یہ کہا جائے گا کہ اجتہاد کے لئے اخلاصِ نیت کو ضروری قراردیاجائے۔ حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی مومن اجتہاد کرلے اور اس کا اجتہاد درست ہو تو اس پر اس کو دہرا ثواب ملے گا (أصاب فلہ أجران)، اور اگر وہ اخلاص نیت کے باوجود اجتہاد میں غلطی کرجائے تو اس کو اس کے اجتہاد پر ایک ثواب ملے گا (أخطأ فلہ أجر) صحیح البخاری، حدیث نمبر7352۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اجتہاد کے معاملہ میں ہمیشہ غلطی کا امکان رہتاہے حتی کہ بڑے بڑے اہل ایمان نے بھی غلطیاں کی ہیں۔ آدمی کو چاہئے کہ جب اس پر اجتہاد کی غلطی واضح ہوجائے تو وہ کھلے طورپر اپنی غلطی کا اعتراف کرے، اور وہ اپنی رائے کو درست کرلے۔
اجتہاد ایک تعمیری عمل ہے۔ اجتہاد سے لوگوں کے اندر تخلیقی سوچ (creative thinking) پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جب اجتہاد کا عمل رک جائے تو یقینی طورپر لوگوں کے اندر ذہنی جمہود (intellectual stagnation) پیدا ہوجائے گا اور ذہنی جمود بلا شبہہ اسلام میں ایک غیرمطلوب چیز ہے۔ جب کوئی آدمی اخلاص نیت کے ساتھ اجتہاد کرے تو فطری طورپر ایساہوگاکہ وہ معاملہ پر گہرائی کے ساتھ غور کرے گا، وہ سنجیدگی کے ساتھ اس کا جائزہ لے گا۔ وہ اس موضوع پر کتابوں کا مطالعہ کرے گا۔ وہ اہلِ علم سے اس موضوع پر تبادلۂ خیال کرے گا۔ یہ تمام چیزیں اخلاص نیت میں شامل ہیں۔ ان چیزوں کا ہونا اخلاص نیت کا ثبوت ہے اور ان چیزوں کا نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی کے اندر اخلاص نیت (فکری سنجیدگی)موجود نہیں۔