انعامات خداوندی
قرآن کی سورہ الحدید کی ایک آیت یہ ہے:لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَیِّناتِ وَأَنْزَلْنا مَعَہُمُ الْکِتابَ وَالْمِیزانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِیدَ فِیہِ بَأْسٌ شَدِیدٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ وَرُسُلَہُ بِالْغَیْبِ إِنَّ اللَّہَ قَوِیٌّ عَزِیزٌ (57:25)۔ یعنی ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ اتارا کتاب اور ترازو، تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔ اور ہم نے لوہا اتارا جس میں بڑی قوت ہے اور لوگوں کے لیے فائدے ہیں اور تاکہ اللہ جان لے کہ کون اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے بِن دیکھے، بیشک اللہ طاقت والا، زبردست ہے۔
آیت کے آخری حصہ میں اللہ کی دو صفتوں، قوی و عزیز (all-strong, almighty) کا ذکر ہے۔ اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ قرآن کی اس آیت میں اللہ کی کامل اور جامع نعمتوں کا بیان ہے۔ اس اعتبار سے یہ آیت بے حد اہمیت کی حامل ہے۔
قرآن کی اس آیت میں انسان کے اوپر اللہ کی دو بڑی نعمتوں کا ذکر ہے۔ ان دو بڑی نعمتوں کے ذریعے انسان کے لیے تمام سعادتوں کے دروازے کھولے گیے ہیں۔ انسان کو دنیا اور آخرت میں ترقی کے لیے جو کچھ درکار ہے، وہ سب آیت میں بتا دیا گیا ہے۔ تاکہ انسان غور کرکےان کو سمجھے، اور صحیح اسپرٹ کے ساتھ ان کو اپنے حق میں استعمال کرے۔
قرآن کی اس آیت میں رسول سے مراد پیغمبر (prophet) ہیں۔ بینات سے مراد وہ معجز نشانیاں ہیں جو یہ ثابت کرنے کے لیے ہیں کہ پیغمبر حقیقی معنوں میں اللہ کا پیغمبر ہے۔ یہ معجز نشانیاں ایسی ہیں جو ہر ذی عقل انسان کو یہ ماننے پر مجبور کرتی ہیں کہ وہ شخص یقیناً اللہ کا نمائندہ ہے۔ اب اگر کوئی شخص پیغمبر کا انکار کرتا ہے تو اس کے پاس اپنے انکار کا کوئی جواز (justification) موجود نہیں۔ قسط سے مراد وہی چیز ہے جس کو دوسرے مقام پر صراط مستقیم کہا گیا ہے۔ یعنی دنیا میں زندگی گزارنے کا وہ راستہ جو خالق کے نزدیک مقبول راستہ ہے۔
قسط (justice) کے ساتھ یہاں لیقوم کا لفظ آیا ہے۔ یعنی اس سے مراد کسی فرد کا خود اپنی زندگی میں قسط کا پیرو بننا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی قسط کا جھنڈا اُٹھائے اور سیاسی اقتدار حاصل کرکے قسط کو لوگوں کے اوپر نافذ (implement) کرے۔ نحوی اعتبار سے یہ کہ قسط کا حکم یہاں لازم کے صیغہ میں ہے، وہ متعدی کے صیغہ میں نہیں۔
حدید کا لفظی مطلب لوہا (iron) ہے۔ غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حدید کا لفظ غالباً علامتی طور پر آیا ہے۔ یعنی اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کو موجودہ زمانے میں ٹکنالوجی کہاجاتا ہے۔ٹکنالوجی کی تعریف یہ کی گئی ہے:
The branch of knowledge dealing with engineering or applied sciences.
حدید ایک علامتی لفظ ہے۔ اس سے مراد وہ تمام معدنیات ہیں جن کو استعمال کرکے موجودہ زمانے کی مشینیں بنتی ہیں، اور ان کو دورِ جدید کی سرگرمیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔