اسلام کیا ہے
اسلام کا لفظی مطلب اطاعت ہے۔ مگر یہ اطاعت جبری نہیں ہے، بلکہ وہ اختیاری ہے۔ انسان کو اس کے پیدا کرنے والے نےآزاد مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے۔ انسان کو اس دنیا میں اپنے اختیار کو استعمال کرنے کے اعتبار سے کامل آزادی حاصل ہے۔ وہ جس طرح چاہے سوچے، وہ جس طرح چاہے کرے۔
اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام ایک خود انضباطی نظام (self-imposed discipline) کا نام ہے۔ خالق نے انسان کو پیغمبر کے ذریعےجو دین بھیجا، اس کی حیثیت رہنما گائڈ کی ہے۔ لیکن فیصلہ پھر بھی انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ اس رہنما گائڈ کا کام انسان کو صرف یہ بتانا ہےکہ صحیح کیا ہے،اور غلط کیا۔ لیکن یہ رہنما گائڈ انسان پر کسی قسم کا جبر قائم نہیں کرتا۔ انسان کی زندگی کا یہی وہ پہلو ہے جس کی بنا پر اس کو خلیفہ کہا گیا ہے۔ خلیفہ کا لغوی مطلب ہے بعد کو آنے والا (successor)۔ لیکن مفہوم کے اعتبار سے اس کا مطلب ہے آزاد مخلوق۔ اسی آزادی کے صحیح یا غلط استعمال پر انسان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے۔
انسان کو آزادی تو حاصل ہے، لیکن اس کو کسی قسم کا اقتدار حاصل نہیں۔ آزادی کے اعتبار سے اس کو بے روک ٹوک آزادی ملی ہوئی ہے، لیکن اقتدار کے اعتبار سے اس کو کسی قسم کی ذاتی طاقت حاصل نہیں۔ یہی وہ فرق ہے، جس کی بنا پر تمام انسان عملاً احساسِ محرومی میں جیتے ہیں۔ کیوں کہ انسان جو کچھ چاہتا ہے، اس کو حاصل کرنے پر وہ قادر نہیں۔ یہی مقام شیطان کے لیے انسان کے اندر داخلہ کا مقام (entry-point) ہے۔ شیطان اس حقیقت سے باخبر تھا، اسی لیے اس نے آغاز انسانیت میں اللہ رب العالمین سے کہا تھا : وَلَا تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِینَ (7:17)۔ یعنی اور تو ان میں سے اکثر کو شکر کرنے والا نہ پائے گا۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو جاننے کا نام ایمان (معرفت)ہے، اور یہی وہ حقیقت ہے جس کے مطابق زندگی گزارنے کا نام عمل صالح ہے۔