ٹرین آف تھاٹ
ایک مومن جس کو اللہ کی دریافت ہوئی ہو، جو کائنات میں اللہ کی نشانیوں کو دیکھتا ہو، جس کو اس کے تدبر نے متوسم (الحجر:75) بنا دیا ہو، ایسا انسان ایک مختلف قسم کا انسان کا ہوتا ہے۔ اس کے ذہن میں ہمیشہ ٹرین آف تھاٹ (train of thought) کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہر واقعہ اس کے ذہن کو ٹریگر (trigger) کرتا رہتا ہے۔ اس بنا پر اس کے افکار کا سفر رکے بغیر رات دن جاری رہتا ہے۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لئے بہت نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بےمقصد نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، پس ہم کو آگ کے عذاب سے بچا (آل عمران :190-191)۔ اس حقیقت کو سیرت رسول کے حوالے سے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:متواصل الأحزان، دائم الفکرة، لیست لہ راحة، طویل السکت، لا یتکلم فی غیر حاجة (شرح السنۃ للبغوی، حدیث نمبر3705)۔ یعنی آپ بے حد سنجیدہ اور مسلسل غور و فکر میں رہتے تھے،آپ کے لیے کوئی راحت نہیں تھی، دیر تک خاموش رہتے، بغیر ضرورت بات نہ کرتے۔
یہی وہ مزاج ہے جو کسی انسان کے اندر وہ اعلیٰ صفت پیدا کرتا ہے جس کو تخلیقی فکر (creative thinking) کہا جاتا ہے۔ تخلیقی فکر والا آدمی ہر آن دنیائے حقیقت کا مسافر بنا رہتا ہے۔ وہ ہر لمحہ معرفت کے نئے آئٹم دریافت کرتا رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کی شخصیت ایک ترقی یافتہ شخصیت (developed personality) بن جاتی ہے۔ یہی ذہنی ارتقا کا اعلیٰ درجہ ہے۔ اس ارتقائی سفر کی لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو ہر قسم کے ڈسٹریکشن سے بچائے۔