دورِ زوال کا ایک ظاہرہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے زوال کے بارے میں پیشین گوئی کے طور پر کہا تھا کہ تم لوگ ضرور پچھلی امتوں کی پیروی کروگے، قدم بقدم۔ یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی گوہ کے بل میں گھسے ہیں، توتم بھی اس میں گھس جاؤگے (صحیح البخاری، حدیث نمبر7320)۔
گوہ (Monitor Lizard) کے بل میں گھسنا ایک بے عقلی کا کام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اگر اپنے دورِ زوال میں کوئی بے عقلی کا کام کیا ہوتو تم اس کو بھی دہراؤگے۔دورِ زوال میں یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر عقلی غور و فکر کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اس بنا پر وہ اپنے زوال یافتہ مزاج کے تحت ایسے کام کرنے لگتے ہیں، جس کا عقل سے کوئی تعلق نہیں۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ یہود اپنے دور زوال میں ایک فعل کرتے تھےجس کو فَرضی قصُور وار (scapegoat) ٹھہرانا کہا جاتا ہے۔یعنی اپنی غلطی کو فرضی طور پر کسی دوسرے کے اوپر ڈالنا۔ یہود کے حوالے سے اس معاملے کی ایک مثال بائبل، عہدنامہ قدیم میں اس طرح آئی ہے:
The other goat, the scapegoat chosen by lot to be sent away, will be kept alive, standing before the Lord. When it is sent away to Azazel in the wilderness, the people will be purified and made right with the Lord. (Leviticus 16:10)
فرضی طور پر کسی دوسرے کو قصور وار (scapegoat) ٹھہرانا موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں بہت زیادہ عام ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اپنی تمام کمیوں اور غلطیوں کے لیے کسی نہ کسی مسلم دشمن کو دریافت کیے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے خود ساختہ طور پر ایک اصطلاح وضع کررکھی ہے، جس کووہ دشمنان اسلام کی سازش کہتے ہیں۔ اسی روش کا دوسرا خود ساختہ نام اسلاموفوبیا (Islamophobia)ہے— اسلاموفوبیا دراصل اسکیپ گوٹ فوبیا (scapegoat) کا دوسرا نام ہے۔ یہ ظاہرہ حدیث رسول کی پیشین گوئی کے عین مطابق ہے۔