دو دنیائیں
خالق نے دو دنیائیں بنائیں۔ ایک انسانی دنیا، اور دوسرے مادی دنیا، جس کو علمی زبان میں نیچر (nature) کہا جاتا ہے۔ کائنات کا مطالعہ کرنے والا، ان دونوں دنیاؤں کے درمیان ایک عجیب فرق پاتا ہے۔ انسانی دنیا اسفل سافلین (التین5:) کی دنیا ہے۔ اس کے مقابلے میں مادی دنیا کے بارے میں خالق کا یہ اعلان ہے کہ لا تری من فطور (الملک:3)۔ دونوں دنیائیں اس طرح ایک دوسرے سے مختلف (different) کیوں ہیں۔
اس کا جواب قرآن میں تلاش کیا جائے،تو یہ معلوم ہوگا کہ مادی دنیا مسخر دنیا (الجاثیہ:13) ہے۔ یعنی خدمت گار دنیا۔ اس کے برعکس، انسانی دنیا ایک آزاد دنیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ ہے بقیہ دنیا اگر خدمت گار دنیا ہے تو انسان اس دنیا کا ماسٹر (master) ہے۔ انسان کو سرداری کا یہ مقام موجودہ دنیا میں بظاہرعمومی طور ملا ہوا مقام دکھائی دیتا ہے۔ لیکن آخری حقیقت کے اعتبار سے یہ مقام انتخابی بنیاد (selective basis) پر ملنے والا ہے۔
انسان کے بارے میں یہ حقیقت قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتی ہے:الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (67:2)۔ یعنی جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون اچھا کام کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ایک ایسی دنیا میں رکھا گیا ہے جہاں ہر قسم کے تجربات پیش آئیں۔ اس کو مسلسل طور پر چیلنج کے درمیان زندگی گزارنا پڑے۔ اس کے لیے مختلف انتخابات (options) ہوں، اور اس کو اپنی عقل کو استعمال کرکے یہ جاننا پڑے کہ اس کو کون سا انتخاب لینا ہے اور کون سا انتخاب چھوڑدینا ہے۔
اس طرح مختلف حالات سے گزرتے ہوئے وہ انسان بنتا ہے جس کو قرآن میں احسن العمل (الملک:2) کہا گیا ہے۔یہی احسن العمل (best in conduct) والے افراد ہیں جن کو منتخب کرکے ابدی جنت میں بسایا جائے گا۔ وہ وہاں خالق کے قرب میں ابدی طور پر اعلیٰ زندگی گزاریں گے۔
دونوں دنیا ؤں کے درمیان جو فرق ہے،وہ ایک بامعنٰی حکمت پر مبنی ہے۔ موجودہ دنیا ایک امتحانی دنیا (testing ground) ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ وہ غیر معیاری دنیا (perfect world) ہو۔ اگر وہ معیاری دنیا ہو تی تو انسان کو جانچنےکے لیے امتحان گاہ (testing ground) نہیں بن سکتی۔موجودہ دنیا کے غیر معیاری ہونے کی وجہ سے انسان کو یہاں بار بار مسائل (problems) کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وہ مسائل ہیں جو انسان کے لیے یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرےکہ دو انتخابات میں سے کس انتخاب کو وہ لیتا ہے، اور کس انتخاب کو چھوڑدیتا ہے۔ اگر دونوں دنیائیں یکساں طور پر معیاری ہوتیں تو یہاں وہ عمل (process) جاری نہیں ہوسکتا تھا، جہاں انسان کو مختلف قسم کے چیلنج پیش آئیں۔ یہ در اصل دونوں دنیاؤں کا فرق ہے جس کی وجہ سے بار بار یہاں چیلنج کی صورت حال پیش آتی ہے۔
چیلنج کی صورتِ حال کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کا ذہن بار بار ٹریگر (trigger) ہوتا رہتا ہے، انسان کے ذہن میں بار بار برین اسٹارمنگ (brainstorming) ہوتی ہے، انسان کے اندر چھپے ہوئے امکانات (potential) جاگتے ہیں۔ اس کی وجہ سے انسان کا ذہن کبھی جمود (stagnation) کا شکار نہیں ہونے پاتا۔ اس کی وجہ سے بار بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے ذہن کو کس رخ پر استعمال کرے،مثبت رخ پر یا منفی رخ پر۔
انسان کے لیے جو مستقبل مقدر کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک ترقی یافتہ شخصیت (developed personality) بنائے۔ یہی ترقی یافتہ شخصیت ہے جس کو قرآن میں مزکّی شخصیت کہا گیا ہے۔ یہ مزکّی شخصیت آسانی کے حالات میں نہیں بن سکتی تھی، وہ صرف مشکل حالات میں بننے والی تھی۔ اس لیے خالق نے کائنات میں یہ بامعنی فرق رکھا۔ مزکّی شخصیت وہ ہے جو خود تیار کردہ شخصیت (self-made personality) ہو۔ یہ وہ انسان ہے جو خود دریا فت کردہ معرفت پر کھڑا ہوتا ہے۔ یہ وہ انسان ہے جو اپنے عمل سے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ماسٹر آف سچویشن (master of situation) تھا، نہ کہ سبجکٹ آف سچویشن۔
موجودہ دنیا آخرت کی دنیا کی نرسر ی (nursery)ہے۔ نرسری وہ ابتدائی مقام ہے جہاں چھوٹے پودوں کو اگایا جاتا ہے تاکہ بعد کوان کو بڑے باغ میں نصب کیا جائے:
Nursery: a place where young plants and trees are grown for planting elsewhere.
موجودہ دنیا کو اس طرح بنایا گیاہے کہ وہ انسان کے لیے ابتدائی نرسری کا مقام بن سکے۔ اور آخرت کی دنیا میں جنت کو اس طرح معیاری انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ وہ انسان کے لیے ہیبیٹاٹ (habitat) بن سکے۔ تاہم اس ہیبیٹاٹ میں ہر انسان کو عمومی بنیاد پر داخل نہیں کیا جائے گا، بلکہ صرف منتخب بنیاد پر داخل کیا جائے گا۔ یعنی ہر انسان کی پچھلی زندگی کے ریکارڈ (record) کو دیکھا جائے گا۔ اس سابقہ ریکارڈ میں جو مرد یا عورت قابل انتخاب قرار پائیں گے، ان کو آخرت کے ہیبیٹاٹ (جنت) میں باعزت طور پر داخلہ کا موقع دیا جائے گا۔
خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے مطابق یہی دونوں دنیاؤں کی حیثیت ہے۔ یہ خالق کا اپنی تخلیق کے بارے میں فیصلہ ہے۔ اس فیصلہ میں کبھی کوئی تبدیلی ہونے والی نہیں۔ انسان کو اپنے ذاتی عمل کے بارے میں اختیار حاصل ہے، لیکن انسان کو یہ اختیار ہرگز حاصل نہیں کہ وہ خالق کے نقشے میں کوئی تبدیلی کرے یا اس کو قبول کرنے سے انکار کردے۔ انسان کو بہر حال اسی تخلیقی نقشے کے مطابق یا تو اپنے آپ کو کامیاب بنانا ہے یا ہمیشہ کے لیے ناکامی کے گڑھے میں ڈال دینا ہے۔