اول المسلمین
قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ (6:163)۔ یہاں اول المسلمین کا لفظ آیا ہے۔ اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہوگا کہ میں پہلا مسلم (first Muslim) بنوں۔ مگر قرآن کی اس آیت کو لفظی معنی میں نہیں لیا جا سکتا۔ کیوں کہ جس وقت یہ آیت اتری اس وقت بہت سے لوگ اسلام قبول کرچکے تھے۔ اور آپ کی اہلیہ خدیجہ نے تو عین اسی دن اسلام قبول کیا تھا، جب کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول مقرر فرمایا۔
حقیقت یہ ہے کہ اول المسلمین یا اول من اسلم کی آیات لفظی معنی میں نہیں، بلکہ وہ عزم کے معنی میں ہے۔ یعنی اسپرٹ کے معنی میں۔ یہ اسی اسپرٹ کا اظہار تھا، جس کو انگریزی زبان میں ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے: آئی ول ڈو اٹ (I will do it)۔
حقیقت یہ ہےکہ یہ ایک باعزم صاحب مشن کا کلمہ ہے۔ وہ صاحب مشن کے یقین اور عزم کو بتاتا ہے۔ یہ کلمہ صاحب مشن کی اس اسپرٹ کو بتاتا ہے کہ اگر کوئی میرا ساتھ نہ دے تب بھی میں اس کام کو انجام دوں گا۔ اگر کوئی شخص میرا ساتھی نہ بنے تب بھی میں اس راہ پر چلنا نہیں چھوڑوں گا۔
اس قسم کی عزیمت کی بات کو اس کے لفظی معنی میں لینا درست نہیں۔ بلکہ ایسی بات کو اس کی حقیقی اسپرٹ کے معنی میں لینا صحیح ہوگا۔ اسی قسم کی ایک مثال وہ ہے جو خلیفہ اول ابوبکر صدیق نے اس وقت کہی تھی، جب کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد فتنہ پھیل گیا تھا، جس کو حضرت عائشہ نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا: لما توفی رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، ارتدت العرب (سنن النسائی، حدیث نمبر3094)۔ اس فتنہ کی شدت کے اعتبار سے حضرت عائشہ نے یہ الفاظ کہے ہیں۔یہاں نہ حضرت عائشہ کے قول کو لفظی معنی میں لینا درست ہوگا، اور نہ حضرت ابوبکر کے قول کو لفظی معنی میں لینا درست ہوگا۔ان کا قول یہ ہے:أینقص وأنا حی (جامع الاصول، حدیث نمبر6426)۔ یعنی کیا دین میں کمی کی جائے گی، حالاں کہ میں زندہ ہوں۔