بڑھاپا آنے سے پہلے
فطرت کے قانون کے مطابق، انسان اپنی عمر کے تقریبا چالیس سال تک بڑھاپے سے پہلے کے دور میں ہوتا ہے۔ چالیس سال کے بعد اس کے اوپر عملاً بڑھاپے کا دور شروع ہوجاتا ہے، جو قانون فطرت (law of nature) کے تحت کسی بھی وقت اُس کو اِس دنیا سےجدا کردینے والا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے:
سفینہ بنا رکھیں طوفاں سے پہلے
یہ اصول زیادہ بہتر طور پر انسان کی عمر کے معاملے میں چسپاں (apply) ہوتا ہے۔ یعنی ہر انسان کو چاہیے کہ بڑھاپے سے پہلے کے دورِ حیات میں وہ اپنے آپ کو آخرت کے لیے تیار کرلے۔ کیوں کہ بڑھاپے کے بعد کے دورِ حیات میں کسی کے لیے یہ موقع باقی نہیں رہتا کہ وہ آخرت کے لیے مطلوب قسم کی تیاری کرسکے۔
تاہم چالیس سال کے بعد کسی انسان کے لیے عمر کا جو دور آتا ہے، وہ اس کی زندگی کا بہترین حصہ ہوتا ہے۔ اس دور میں وہ زیادہ سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر پختگی (maturity) آجاتی ہے۔ اس کا ذہنی ارتقا (intellectual development) اپنی تکمیل کے دور میں پہنچ جاتا ہے۔ اس کو ایسے تجربات (experiences) حاصل ہوجاتے ہیں، جو اس کی صحیح طرز فکر کے لیے رہنما بن سکیں۔
چالیس سال کے بعد کسی انسان کی زندگی میں جو دور آتا ہے، وہ اس کے لیے آخرت کی تیاری کا بہترین دور ہوتا ہے۔ اب عملاً وہ فطری انسان (man cut to size)بن چکا ہوتا ہے۔ اب اس کے پاس زیادہ تیار ذہن (prepared mind)ہوتا ہے، جس کی روشنی میں وہ زیادہ درست طور پر اپنے مستقبل کا نقشہ بنا سکے۔چالیس سال کےبعد کی عمر میں زیادہ ممکن ہوجاتا ہے کہ آدمی بے خطا انداز میں اپنے آپ کو آخرت کے لیے تیار کرسکے— دانش مند وہ ہے جو اپنے اس حصۂ عمر کو استعمال کرے، اور غیر دانش مند وہ ہے جو اپنے اس حصۂ عمر کو استعمال کیے بغیرکھودے۔