ختم نبوت
قرآن میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی۔ اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ آپ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ وسیع تر معنوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد انسانی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ اب کسی انسان کودعویٰ (claim) کی زبان میں بولنے کا حق نہیں ہوگا۔ اب اگر کوئی شخص دین حق کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو اس کوصرف یہ کرنا ہوگا کہ وہ مخلصانہ طور پر جس چیز کو اپنی دینی ذمہ داری سمجھے، اس کے لیے وہ اللہ کی مدد کا طالب بنے، اور دعا کرتے ہوئے اس پر عمل شروع کردے۔ اسی کے ساتھ یہ ضروری ہوگا کہ وہ ہر لمحہ اپنی اصلاح کے لیے تیار رہے۔ جب بھی اس پر واضح ہو کہ فہم دین میں اس سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ فوراً رجوع کرلے، اور جو دین صحیح اس پر واضح ہوا ہے، دوبارہ اس پر قائم ہوجائے۔
ختم نبوت کا مطلب دعوی کی زبان کا ختم ہونا ہے۔ اب کوئی شخص مدعیانہ زبان بول کر اپنے عمل کا آغاز نہیں کر سکتا۔اجتہاد کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے، لیکن مدعیانہ کلام کا دروازہ اب ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے۔ مثلا اگر کوئی شخص یہ اعلان کرے کہ میں مہدی موعود ہوں یا میں امام زمانہ ہوں تو اس قسم کا دعویٰ اپنے آپ ہی قابل ردّ قرار پائے گا:
prima facie it stands rejected
اگر کسی شخص کو یہ توفیق ملے کہ وہ دین صحیح کو دریافت کرے، اور اخلاص کے ساتھ وہ اس پر قائم ہوجائے تب بھی اس کو یہ حق نہیں کہ وہ دعویٰ کی زبان بولے۔ باعتبار حقیقت اگروہ ایک ہدایت یاب شخص ہے تو اس کا اعلان صرف آخرت کی عدالت میں کیا جائے گا۔ بطور خود کوئی شخص یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ اپنے آپ کو نبی کی مانند ہدایت یاب سمجھے۔پیغمبر اسلام نے کہا تھا: أنا النبی لا کذب (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2864)۔ لیکن کسی غیر پیغمبر کو اس طرح کی مدعیانہ زبان میں کلام کرنے کا حق نہیں۔ اب آدمی صرف عمل کا حق رکھتا ہے، دعویٰ کی زبان میں بولنے کا حق کسی کو نہیں۔