اعتماد علی اللہ
خود اعتمادی یا الثقۃ بالنفس(self confidence) کی اصطلاح قرآن یا حدیث میں استعمال نہیں ہوئی ہے۔ اس کے بجائے قرآن و حدیث میں جو لفظ استعمال ہوا ہے، وہ توکل علی اللہ کا لفظ ہے۔ یہ فرق کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک بے حد اہم فرق ہے۔ خود اعتمادی کا لفظ ایک ڈسپٹو (deceptive) لفظ ہے۔ اس سے سارا فوکس اپنی ذات پر چلاجاتا ہے، جس کا نتیجہ فخر (pride) ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر آپ توکل علی اللہ کا لفظ بولیں تو آپ کا سارا فوکس اللہ پر قائم رہے گا، اور اس کے نتیجے میں آپ کے اندر تواضع (modesty) پیدا ہوگی۔
غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ خود اعتمادی کا کام اصلاً صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ خود اعتمادی آپ کو پہلے قدم (first step) کی ہمت دیتا ہے۔ اس کے بعد سارا کام قوانین فطرت کے تحت انجام پاتا ہے، جو کہ خالق نے اس دنیا میں قائم کیا ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ کسی معاملے میں خود اعتمادی کا حصہ ایک فیصد ہے، اور قوانین فطرت کا حصہ ننانوے فیصد۔
خود اعتمادی بظاہر ایک اچھی صفت ہے، لیکن اجتماعی زندگی میں وہ اکثر مسئلہ پیدا کرنےکا سبب بن جاتی ہے۔ جس آدمی کے اندر خود اعتمادی ہو، وہ اکثر شعوری یا غیر شعوری طور پریہ سمجھ لیتا ہے کہ کام جو ہوا ہے، وہ صرف اس کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس بنا پر وہ چاہنے لگتا ہے کہ کام کا سارا کریڈٹ صرف اس کو ملے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اجتماعیت کا ایک پرابلم ممبر بن جاتا ہے۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ اس کو سارا کریڈٹ نہیں مل رہا ہے تو وہ منفی سوچ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اجتماعی زندگی میں جو رول اس کو ادا کرنا تھا، اس رول کو وہ بخوبی طور پر ادا کرسکے۔اس کے برعکس، توکل علی اللہ یا اعتماد علی اللہ کی نفسیات سے انسان کے اندر ہر قسم کے مثبت اوصاف (positive qualities) پیدا ہوتی ہیں۔ وہ اجتماعی زندگی کا ایک صحت مند ممبر بن جاتا ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اجتماعی زندگی میں اپنے مطلوب رول کو بخوبی طور پر ادا کرسکے۔