دین میں تنگی نہیں
قرآن میں امت مسلمہ کو خطاب کرتے ہوئے ایک آیت آئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: اور اللہ کی راہ میں کوشش کرو جیسا کہ کوشش کرنے کا حق ہے۔ اس نے تم کو چنا ہے۔ اور اس نے دین کے معاملہ میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی، تمہارے باپ ابراہیم کا دین۔ اسی نے تمہارا نام مسلم رکھا۔ اس سے پہلے اور اس قرآن میں بھی تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ بنو۔ پس نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اور اللہ کو مضبوط پکڑو، وہی تمہارا مالک ہے۔ پس کیسا اچھا مالک ہے اور کیسا اچھا مدد گار۔ (الحج:78)۔
یہ آیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف معاصر اہل ایمان سے متعلق نہیں ہے، بلکہ یہ آیت پوری امت مسلمہ کو خطاب کررہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امت مسلمہ کو ایک نئے دور میں دینی کام کرنا ہے۔ یہ دور پچھلے ادوار کے برعکس تنگی کا دور نہیں ہوگا، بلکہ وہ آسانی کا دور ہوگا۔ اس واقعہ کو قرآن کی ایک اور آیت میں دعا کے اسلوب میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَى الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا (2:286)۔ اے ہمارے رب، ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جیسا بوجھ تو نے ڈالا تھا ہم سے اگلوں پر۔
مذکورہ آیت میں بتایا گیا ہے کہ امت مسلمہ کا جہاد (مشن) کیا ہوگا۔ وہ مشن یہ ہوگا کہ پیغمبر کے دعوتی کام کو نسل در نسل قیامت تک جاری رکھنا۔ یہ مشن وہی تھا، جو تمام نبیوں کا مشن تھا، یعنی انذار اور تبشیر کا مشن۔ تاریخ کے پچھلے ادوار میں فتنہ (religious persecution) کی وجہ سے، پچھلے اہل ایمان کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا، جو مکمل طور پر قدیم قسم کی مشکلات سے پاک تھا۔ اکیسویں صدی میں یہ دور اپنی آخری تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ اب پیغمبر کے دعوتی مشن کو یُسر (آسانی) کے حالات میں انجام دیا جاسکتا ہے، جب کہ قدیم زمانے میں اس کو عُسر (مشکل) کے حالات میں انجام دینا پڑتا تھا۔