صحیح طرز فکر
ابن الاعرابی (وفات:231 ھ)کو عربی زبان کا امام کہا جاتا ہے۔ ان کا تعلق عراق سے تھا۔ انھوں نے ایک قدیم عربی قول کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے:خذ ما صفا ودع ما کدر(لسان العرب، تحت لفظ الکدر)۔ یعنی جو صاف ہو اس کو لے لو، اور جو صاف نہ ہو اس کو چھوڑ دو۔یہ سادہ الفاظ میں حکمت (wisdom) کی تعریف ہے۔
انسان ایک آزاد مخلوق ہے۔ اس بنا پر انسانی دنیا ہمیشہ افکار کا جنگل رہی ہے۔ افکار کے اس جنگل میں انسان کو سوچنا پڑتا ہے، اور یہ جاننا پڑتا ہے کہ اس کی نسبت سے کون سی بات قابل اخذ ہے اور کون سی بات قابل ترک۔ اس بات کو علمی انداز میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ حکمت اس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی افکار کے ڈھیر میں متعلق کو دریافت کرے، اور غیر متعلق کو چھانٹ کر الگ کردے:
The ability to discover the relevant after sorting out the irrelevant.
مثلا مغربی تہذیب کو لیجیے۔ جدید مغربی تہذیب میں کچھ چیزیں وہ ہیں جو فطرت کے ابدی قانون پر مبنی ہیں۔ مثلا کشش ارض کا اصول فطرت کا ایک ابدی قانون ہے۔ اس کے مقابلے میں مغربی کلچر ماحول کے اثر سے بنا ہے۔ صاحب فکر آدمی کا کام ہے کہ وہ ان میں تنقیح کرے۔ یعنی خالص کو ردی سے جدا کرکے بیان کرے۔ ایسا کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی کے کلام میں وضوح ( clarity) آئے گا۔ اس کو سننے یا پڑھنے والے آدمی کا ذہن ایڈریس ہوگا۔ وہ فیصلہ کرسکے گا کہ وہ درست طور پر کس طرح سوچے، اور درست طور پر کس طرح اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔
اس اعتبار سے کلام کی دو قسمیں ہیں۔ منقح کلام اور غیر منقح کلام۔ منقح انداز میں کلام کرنا، ایک بے حد مشکل کام ہے۔ یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جو حکیمانہ طرز فکر کا حامل ہو، وسیع مطالعہ کی بنا پر جس کی پہنچ علوم کے سرے تک ہو گئی ہو۔