عطیات خداوندی
قرآن میں ایک حقیقت کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے: وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّہِ لَا تُحْصُوہَا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّارٌ (14:34)۔یعنی اور اس نے تم کو ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے مانگا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو تم گن نہیں سکتے۔ بیشک انسان بہت بےانصاف اور بڑا ناشکرا ہے۔
قرآن کی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں فطری طور پر انسان کی جو ضرورتیں ہیں ، خالق کی طرف سےوہ سب کی سب انسان کو دے دی گئی ہیں۔ اب انسان کو اپنی ضروریات کے لیے تخلیق نہیں کرنا ہے، بلکہ ضروریات کو دریافت کرکے اس کو استعمال (avail)کرنے کی پلاننگ کرنا ہے، تاکہ انسان ان کو پوری طرح استعمال کرسکے۔
ضروریات کی یہ فراہمی صرف ہوا اور پانی تک محدود نہیں ہے، بلکہ دوسری تمام چیزوں تک وسیع ہے۔ مثلا ً حکومت کو لیجیے۔ لوگ حکومت کو سرچشمہ اقتدار سمجھتے ہیں۔ وہ اہلِ حکومت سے حکومت کو چھیننے کے لیے بڑی بڑی لڑائیاں کرتے ہیں۔ حالاں کہ حکومت کا جو اصل مقصد ہے، وہ ہر ایک کو یکساں طور پر حاصل ہے۔ غور کیجیے تو حکومت کی سیٹ (seat) پر بیٹھنے کا موقع کسی ایک شخص کو ملتا ہے۔ لیکن ایک قائم شدہ حکومت کی صورت میں جو امن (peace) قائم ہوتا ہے، اس میں ہر ایک کو حصہ ملتا ہے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے، تو سیاست کے معاملے میں لوگوں کو اقتدار چھیننے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ موجودہ حکومت کے ذریعے حاصل شدہ مواقع کو اپنے اپنے مقصد کے مطابق اویل (avail) کرنے کی ضرورت ہے۔ گویا سیاسی اقتدار کے معاملے میں اصل چیز حاصل شدہ مواقع کو استعمال کرنے کی پلاننگ ہے، نہ کہ اقتدار کی کنجی کو چھیننے کی پلاننگ۔ اسی لیے قرآن میں دوسری چیزوں کی طرح حکومت کو بھی عطیہ خداوندی بتایا گیا ہے (البقرۃ 2:26)۔