اللہ کی عظمت

فتح ِمکہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک صحابی کہتے ہیں : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّةَ، فَقَالَ:لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ، نَصَرَ عَبْدَہُ، وَہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ- قَالَ ہُشَیْمٌ مَرَّةً أُخْرَى-الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی صَدَقَ وَعْدَہُ، وَنَصَرَ عَبْدَہُ (مسند احمد، حدیث نمبر 15388)۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح ِمکہ کے دن خطبہ دیا، تو کہا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے، اسی نے اپنے بندے کی مدد کی، اور اکیلے لشکروں کو شکست دی، ہُشَیم راوی نے ایک مرتبہ یہ بھی کہا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، جس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اور اپنے بندے کی مدد کی۔

مکہ کی فتح کا واقعہ سن آٹھ ہجری میں ہوا، آپ اس واقعے کو تاریخ کی کتابوں میں پڑھیں تو بظاہر ایسا معلوم ہوگا جیسے کہ یہ واقعہ رسول اور اصحابِ رسول کی کوششوں سے وقوع میں آیا۔ پھر رسول اللہ نے فتح مکہ کے دن اپنی تقریر میں مذکورہ بالا الفاظ کیوں کہے۔ یہ قصیدے کی زبان نہیں  ہے، بلکہ واقعے کی زبان ہے۔ اگر وہ قصیدہ کی زبان ہو، تو اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اس کی اہمیت اسی وقت ہے، جب کہ وہ حقیقت کی زبان میں کہی جائے۔

اصل یہ ہے کہ کوئی بھی واقعہ جو اس دنیا میں پیش آتا ہے، وہ بے شمار عوامل (factors) کے مجموعی عمل کے نتیجے میں پیش آتا ہے۔ ان عوامل پر انسان کو کوئی اختیار نہیں۔ ان عوامل میں کوئی ایک عامل اگر اپنا کام نہ کرے، تو مطلوب نتیجہ کا نکلنا ناممکن ہوجائے گا۔ خواہ ایک درخت کا اگنا ہو، یا سورج کا نکلنا ہو، یا بارش کا برسنا ہو، سب اسی نہج پر وقوع میں آتے ہیں۔ یہی معاملہ تاریخ کے واقعات کا بھی ہے۔مومن وہ ہے،جو صاحبِ معرفت انسان ہو۔ صاحب معرفت انسان، صاحبِ دریافت انسان ہوتا ہے۔ ایک مومن کی معرفت انہیں  عالمگیر حقائق پر قائم ہوتی ہے۔ مومن جب مذکورہ قسم کے الفاظ بولتا ہے، تو وہ قصیدہ کی زبان نہیں  ہوتی، بلکہ وہ دریافت (discovery) کی زبان ہوتی ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom