بے ادبی کا تصور

ایک شہر میں ، میں ایک تعلیم یافتہ مسلمان کے یہاں گیا۔ وہ ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ اُس سے ملاہوا غیر مسلموں کا فلیٹ تھا۔ مسلمان نے کہا کہ ہم لوگ اِس گھر میں پریشان رہتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اِس گھر میں کچھ آسیب کا اثر ہے۔ میں نے کہا کہ یہ سب توہم پرستی (superstition) ہے۔ پھر میں نے اُن سے قرآن مانگا، تاکہ اِس معاملے میں ، میں اُن کو قرآن کی ایک آیت دکھاؤں۔ معلوم ہوا کہ ان کے گھر میں قرآن کا کوئی نسخہ موجودنہیں  ہے۔ میں نے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے۔ صاحبِ خانہ نے جواب دیا کہ پہلے یہاں قرآن کا ایک نسخہ موجود تھا، پھر ہم نے اُس کو بے ادبی کے ڈر سے مسجد میں رکھوا دیا۔

یہ واقعہ بتاتا ہے کہ قرآن کے بارے میں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا مزاج کیا ہے۔ قرآن کو وہ شعو ری طورپر اپنے لیے رہ نمائی کی کتاب نہیں  سمجھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن ایک مقدس کتاب ہے اور اُس کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اُس کو مفروضہ ’’بے ادبی‘‘ سے بچایا جائے۔بے ادبی کیا ہے۔ مسلم تصور کے مطابق، بے ادبی یہ ہے کہ قرآن نیچے ہو اور آپ اوپر بیٹھ جائیں۔ وضو کیے بغیر کوئی شخص قرآن کو چھولے۔ کوئی غیر مسلم، قرآن کو اٹھا کر اُسے دیکھنے لگے۔ قرآن غلاف میں لپٹا ہوا نہ ہو۔ قرآن ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر جائے۔ قرآن کھلا ہو ا رہ جائے، کیوں کہ ایسا ہوگا تو شیطان اس کو پڑھے گا۔ قرآن کے اوپر کوئی اور کتاب، یا کوئی اور چیز رکھ دی جائے، وغیرہ۔

یہ سب بے اصل باتیں ہیں۔ اِن خود ساختہ نظریات نے مسلمانوں کو قرآن سے دور کردیا ہے۔ قرآن کا حق یہ ہے کہ قرآن کو پڑھا جائے۔ اُس سے نصیحت لی جائے۔ اُس سے اپنے معاملات میں رہ نمائی حاصل کی جائے۔ قرآن پر غور کیا جائے اور اس کو سمجھ کر پڑھا جائے۔ اُس سے اپنی زندگی میں روشنی حاصل کی جائے— قرآن، ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے اور یہی اُس کا حق ہے کہ لوگ اُس سے ہدایت حاصل کریں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom