جنّت کا ٹکٹ
مغربی دنیا کے ایک سفر میں میری ملاقات ایک مسلمان سے ہوئی۔ ان کی عمر پچاس سال سے اوپر ہوچکی ـتھی۔ انھوں نے کہا: مجھ کو تو جنّت کا ٹکٹ چاہیے، مجھ کو آپ صرف یہ بتائیے کہ جنّت کا ٹکٹ کیا ہے۔
میں نے کہا کہ جنت کا کوئی ٹکٹ نہیں۔ یہ جنتی ٹکٹ کا معاملہ نہیں ، یہ جنتی شخصیت کا معاملہ ہے۔ آخرت کی قیمتی جنت اس آدمی کو ملے گی جس نے اپنے اندر جنتی شخصیت کی تعمیر کی تھی۔ جنت میں داخلہ کسی کو ’’ٹکٹ‘‘ کے ذریعہ نہیں ملے گا۔ جنت کی قیمت آدمی کا اپنا وجود ہے، اپنے وجود کی قیمت دے کر ہی کوئی شخص جنت کی دنیا میں اپنے لیے داخلہ پاسکتا ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت تزکیہ کرنے والوں کےلیے ہے (طہ، 20:76)۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ جنت میں داخلہ کی شرط یہ ہے کہ آدمی مزکّی شخصیت لے کر وہاں پہنچا ہو۔ یعنی وہ ایک ایسا انسان ہو جس کے اندر پاک روح بسی ہوئی ہو، جس کا دل اور دماغ آلائشوں سے پاک ہو۔ جس نے اپنے اندر ربّانی شخصیت کا باغ اگایا ہو۔
موجودہ دنیا ایک ایسی دنیا ہے جس کے ایک طرف کیچڑ ہے اور دوسری طرف صاف وشفاف پانی۔ آدمی چاہے تو اپنے کو کیچڑ میں گندا کرے، اور چاہےتو صاف پانی میں نہاکر صاف ستھرا بن جائے۔ جو لوگ اپنے آپ کو گندا کریں ، وہ آخرت میں جہنم میں ڈال دیے جائیں گے۔ اور جو لوگ اپنے آپ کو پاک کریں ، ان کو جنت کی نعمت گاہوں میں بسایا جائے گا۔
اعتراف کے موقع پر اعتراف کرنا، اپنی شخصیت کو پاک کرنا ہے۔ اس کے برعکس، اعتراف کے موقع پر بے اعترافی کا رویہ اختیار کرنا، اپنی شخصیت کو گندا کرنا۔ اسی طرح ایک موقع آتا ہے جس میں ایک شخص اعلی اخلاق کا ثبوت دیتا ہےاور دوسرا شخص پست اخلاق کا۔ ایک موقع آتا ہے جس میں ایک شخص حق تلفی کرتاہےاور دوسرا شخص حق رسانی۔ ایک موقع آتاہے جس میں ایک شخص امین ثابت ہوتا ہےاور دوسرا شخص خائن۔ ایک موقع آتا ہے جس میں ایک شخص تواضع کے راستہ پر چلتاہے اور دوسرا شخص سرکشی کے راستہ پر۔ان میں سے پہلا آدمی جو اپنی شخصیت کو پاک کرنے والا ہے، وہ جنت کی نفیس دنیا میں داخلہ پائے گا۔ اس کے برعکس، دوسرا آدمی جو اپنی شخصیت کو گندا کرنے والا ہے، اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔