ایک خط
ایک عالم دین اپنے خط میں لکھتے ہیں : میں ابھی سر ی لنکا کے سفر سے واپس ہوا ہوں۔ اس دوران وہاں کےدینی مدارس کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔میں نے یہ دیکھا کہ سری لنکا کےدینی مدارس کے نصاب میں شاہ ولی اللہ صاحب کی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ شامل نہیں ہے۔مگر ہندوستان کے مدارس میں اس کتاب کو اہمیت کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔واپسی کے بعد اس کتاب کے تعلق سے میری گفتگو ہندستان کے ایک بزرگ عالم دین سے ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ اس تعلق سے میری رائے یہ ہے کہ حجۃ اللہ البالغۃ کو ہندوستان کے مدارس میں شاہ صاحب کی عقیدت میں پڑھایا جاتا ہے۔ میں ذاتی طور پر شاہ صاحب کی اُس توجیہہ کو زیادہ دلچسپی کے ساتھ طلبہ کو پڑھاتا ہوں ، جو انھوں نے امت میں موجود اختلافات کے تعلق سے بیان کی ہیں ، مثلاً مقلدین اور غیر مقلدین کے مسائل۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو کچھ بھی نہیں سمجھتے، تو شاہ صاحب نے دونوں کے درمیان اعتدال قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے مجھے یہ نقطۂ نظر پسند ہے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ خیال کہ اسرارِ شریعت سے لوگوں کو واقف کرایا جائے،تو اسرارِ شریعت میں انھوں نے تکلف کیا ہے، مجھے اس سے زیادہ اتفاق نہیں۔ اس باب میں میری رائے یہ ہے کہ یہ ناممکن بات ہے کہ آپ ہر ایک حکم کی علت پیش کریں ، جیسے پانچ وقت کی نمازوں میں رکعات کیوں مختلف ہیں ، سری اور جہری نمازیں کیوں ہیں ، وغیرہ۔ ایسی تمام باتوں سے پچاس فیصد ہی اتفاق کیا جاسکتا ہے، مجھے ذاتی طور پر ان باتوں سے دلچسپی نہیں ہے۔ (ایک قاری الرسالہ، نئی دہلی)
الرسالہ: شاہ ولی اللہ صاحب کی کتاب کا ٹائٹل ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ قرآن کی ایک آیت سے لیا گیا ہے۔ اس آیت کے الفاظ یہ ہیں : قُلْ فَلِلَّہِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاءَ لَہَدَاکُمْ أَجْمَعِینَ (6:149)۔ یعنی کہو کہ حجت بالغہ تو اللہ کی ہے، اور اگر اللہ چاہتا تو وہ تم سب کو ہدایت دے دیتا۔ الحجۃ البالغۃ سے مراد کس قسم کے دلائل ہیں۔ قرآن کے دوسرے مقامات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد آیات ِکون ہیں ، یعنی زمین و آسمان میں پھیلی ہوئی نشانیاں۔ یہ آیاتِ کون وہی ہیں ، جن کو موجودہ زمانے میں سائنسی دلائل کہا جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اپنی کتاب کا ٹائٹل تو قرآن کی ایک آیت سےلیا، لیکن ان کی پوری کتاب میں کہیں بھی دلائلِ کون کا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔ اس لحاظ سے اس کتاب کا ٹائٹل درست ٹائٹل نہیں۔ اس کا ٹائٹل غالباً یہ ہونا چاہیے کہ’’ احکامِ دین کے اسرار پر روایتی دلائل‘‘۔ مزید یہ کہ شاہ ولی اللہ کے بعد ان کے کسی شاگرد نے اس کتاب میں دلائلِ کون کا اضافہ نہیں کیا۔ کتاب اپنی ابتدائی صورت میں بدستور پڑھی اور پڑھائی جارہی ہے۔
عام طورپر لوگ چیزوں کو فیس ویلو (face value) پر لیتے ہیں۔ وہ چیزوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ نہیں سمجھ پاتے۔ مثلاً امریکا کے ایک سفر میں میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی، جو باہر سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں۔ جدید اصطلاح میں ایسے لوگوں کو امیگرنٹ (immigrant) کہاجاتا ہے۔ یہ امیگرینٹ لوگ زیادہ تر تعلیم یافتہ تھے۔ یہاں آکر وہ یہاں کے مختلف ترقیاتی شعبوں میں سروس کرنے لگے۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ امریکا کو امریکیوں نے ترقی نہیں دی ہے، بلکہ امیگرینٹ لوگوں نے ترقی دی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ بات درست نہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو یہ امیگرنٹ لوگ خود اپنے ملک کو کیوں ترقی نہ دے سکے۔ میں نے کہا کہ اصل یہ ہے کہ امریکا میں میرٹ (merit) کا اصول ہے۔ یہ اصول لوگوں کے اندر عمل کا محرک (incentive) پیدا کرتا ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ کام کرتے ہیں ، تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ رٹرن (return) پاسکیں۔ ایسی حالت میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ امریکا کو مسٹر امیگرنٹ (Mr. Immigrant) نے ترقی نہیں دی، بلکہ امریکا کو مسٹر انسینٹیو (Mr. Incentive) نے ترقی دی۔