ای- اتصال
21 مئی 2008 کو ماہ نامہ الرسالہ کے ایک قاری کا ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ میں برسوں سے الرسالہ کا مطالعہ کرتا ہوں اور اُس کے پیغام سے پوری طرح اتفاق رکھتا ہوں۔ ایک مسئلہ میرے سامنے آگیا ہے، اس میں آپ کی رہ نمائی چاہتا ہوں۔ میرے والد صاحب کا اصرار ہے کہ اِس سال میں حج کے لیے جاؤں۔ وہ میرے سفرِ حج کی پوری رقم دینے کے لیے تیار ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ گھر کے دوسرے افراد سب حج کرچکے ہیں ، میں چاہتا ہوں کہ تم بھی میری زندگی میں حج کرلو۔ کیا معلوم میرے بعد کیا ہو۔
انھوں نے کہا: لیکن مجھے ابھی اِس پیش کش کو قبول کرنے میں تردد ہے۔ جلد ہی میرا نکاح ہوا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اور میری اہلیہ دونوں ، ایک ساتھ حج کی سعادت حاصل کریں۔ میں نے پوچھا: کیا آپ کے پاس اتنی رقم ہے کہ آپ دونوں ایک ساتھ حج کرسکیں۔ انھوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ پھر یہ کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہے کہ آپ ایک مفروضہ بات کو لے کر ایک حقیقی پیش کش کو رد کردیں ، جب کہ مستقبل کے بارے میں کوئی بھی شخص کوئی یقینی بات نہیں کہہ سکتا۔ میں نے کہا کہ زندگی کا ایک اصول یہ ہے — کوئی موقع(opportunity) ملے، تو اس کو فوراً استعمال (avail)کرو، کیوں کہ موقع بار بار نہیں آتا۔انھوں نے کہا کہ آپ کی نصیحت بالکل درست ہے اور میں ان شاء اللہ ایسا ہی کروں گا۔
موجودہ زمانے میں ایک نئی سہولت پیدا ہوئی ہے جس کو الیکٹرانک اتصال کہاجاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ ماہ نامہ الرسالہ پڑھتے ہیں ، اُن کو اِس سہولت کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ میرا تجربہ ہے کہ صرف الرسالہ، یا کتاب کو پڑھنا کافی نہیں ہوتا۔ ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے بعد براہِ راست ڈسکشن کیاجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ موبائل اور انٹرنیٹ موجودہ زمانے میں براہ راست صحبت کا بدل ہے۔جدید ذرائعِ اتصال کے ذریعے صحبت کا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ الرسالہ کے قارئین کو ان جدیدذرائع سے یہ صحبت کلچر جاری کرنا چاہیے۔