دعا کی قبولیت

غالباً 1965 ء میں میں اعظم گڑھ سے کانپور گیا تھا۔ کانپور میں میرے ایک مدرسے کے ساتھی تھے،ان کا نام تھا، مرزا امتیاز بیگ اصلاحی۔ اب ان کا انتقال ہوچکا ہے۔ کانپور کے اس سفر میں میں مرزا امتیاز بیگ اصلاحی کےیہاں چند دن ٹھہرا۔ یہاں قیام کے دوران انھوں نے اپنا ایک ذاتی واقعہ بتایا، جو بہت سبق آموز تھا، اور یہ واقعہ اب تک مجھے یاد ہے۔

مرزا امتیاز بیگ اصلاحیاعظم گڑھ کے رہنے والے تھے۔ کانپور میں انھوں نے چمڑے کا بزنس شروع کیا تھا۔ پہلے وہ یہاں ایک مکان میں کرائے پر رہتے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد مالکِ مکان نے مکان خالی کرنے کے لیے کہا۔ انھوں نے کوشش کی کہ دوسرا کوئی مکان کرائے پر مل جائے، مگر کافی کوشش کے باوجود ان کو کانپور میں دوسرا کوئی مکان کرائے پر نہیں  ملا۔ ان کا یہ مالک مکان ایک ہندو تاجر تھا۔ وہ روزانہ اس کے پاس جاتے، اور کہتے کہ میرے پاس کوئی دوسرا مکان نہیں  ہے، اس لیے آپ مجھے اس مکان میں رہنے دیں۔ لیکن مالک مکان کسی طرح راضی نہیں  ہوتاتھا۔ وہ روزانہ مالک مکان کو راضی کرنے کی کوشش کرتے، لیکن اس پر کوئی اثر نہیں  ہوتا۔ آخر کار ایک دن اس نے الٹی میٹم کی زبان میں کہہ دیا کہ آپ میرے مکان کو خالی کردیں ، ورنہ میں آپ کے خلاف قانونی کارروائی کروں گا۔

یہ سن کر مرزا امتیاز بیگ اصلاحی مایوسی کے عالم میں واپس آگئے۔ اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں  تھا کہ وہ اللہ سے دعا کریں۔ اس رات کو انھیں نیند نہیں  آئی، وہ رات کے اکثر اوقات دعا کرتے رہے۔ انھوں نے اللہ سے کہا : خدایا، میرے پاس تو کوئی گھر نہیں  ہے، میں کل کہاں جاؤں۔ اسی طرح کی دعاؤں میں رات گزرگئی۔ اگلے دن صبح کو وہ پھر مالکِ مکان کے پاس گئے۔ جب وہ اس کے دروازے پر پہنچے تو ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جو ان کی توقع کے بالکل خلاف تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ مالک مکان اور اس کی بیوی دونوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اُن پر نظر پڑتے ہی مالک ِمکان بولا۔ مرزا صاحب آئیے، ہم تو آپ ہی کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر مالک مکان نے خلاف توقع کہا: ہمارے پاس ایک اور مکان ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ فی الحال ہم اس کو استعمال کریں گے۔ اس درمیان آپ کوئی مکان تلاش کر لیجیے۔جب مکان مل جائے، تو آپ ہمارے مکان کو ہمارے استعمال کے لیے چھوڑ دیجیے۔

یہ ایک سچا واقعہ ہے، جس کو خود صاحبِ واقعہ نے براہ راست طور پر مجھ سے بیان کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بندے کو ہمیشہ سچی اسپرٹ کے ساتھ دعا کرنی چاہیے، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:أَمَّنْ یُجِیبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوءَ (27:62)۔یعنی کون ہے جو بے بس کی پکار کو سنتا ہے اور اس کے دکھ کو دور کر دیتا ہے۔اگر بندہ اس اسپرٹ کے ساتھ دعا کرے تو عین ممکن ہے کہ اللہ اس کی دعاؤں سے فریقِ ثانی کے دل کو بدل دے، اور اس کا انکار اقرارمیں تبدیل ہوجائے۔

تاریخ میں اس قسم کی قبولیتِ دعا کے واقعات ملتے ہیں۔ مثلاً قدیم مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پیمانے پر دعوت کا کام کیا۔ وہاں بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ لیکن عمربن الخطاب آپ کے مخالف بنے رہے۔ یہاں تک کہ روایت میں آیا ہےکہ ایک صحابی، عامر بن ربیعہ اپنی بیوی، لیلی بنت ابی حثمہ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کررہے تھے کہ عمر بن الخطاب کا وہاں سے گزر ہوا۔ عمر نے ماجرا پوچھا، انھوں نے جواب دیا کہ تم لوگ ہمیں ستاتے ہو، اس لیے ہم شہر چھوڑ کر جارہے ہیں ، عمر نے کچھ ہمدردی کے الفاظ کہے۔ یہ سن کر عامر بن ربیعہ نے کہا: کیا تم امید کرتی ہو کہ عمر اسلام قبول کرلے گا، لیلیٰ نے کہا: ہاں ، تو عامر نے جواب دیا:خدا کی قسم،خطّاب کا گدھا اسلام قبول کرسکتا ہے، لیکن عمر نہیں  کرے گا (وَاللّہِ لَا یُسْلِمُ حَتَّى یُسْلِمَ حِمَارُ الْخَطَّابِ )۔ المعجم الکبیر للطبرانی، 25/29/47۔ مگر رسول اللہ عمر بن الخطاب سے مایوس نہیں  ہوئے، اور آپ نے دعا کی:اللہُمَّ أَیِّدِ الْإِسْلَامَ بِعُمَر(مسند احمد، حدیث نمبر4362)۔ یعنی اے اللہ تو عمر کے ذریعے اسلام کی تائید کر۔ اس کے بعد خود عمر بن الخطاب نے اسلام قبول کرلیا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom