حق کی مخالفت
حق کی مخالفت اصلاً صرف ایک سبب سے ہوتی ہے، اور وہ ہے ماحول کی کنڈیشننگ۔ ہر انسان ایک ماحول میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ آدمی اپنے قریبی ماحول سے اثر قبول کرتا ہے۔ اس تاثر پذیری کو جدید نفسیاتی اصطلاح میں کنڈیشننگ (conditioning) کہا جاتا ہے۔اسی معاملے کو حدیث میں ماں باپ کی طرف منسوب کیا گیا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔
یہ کنڈیشننگ اگرچہ گہری ہوتی ہے، لیکن وہ انسان کی فطرت کو نہیں بدلتی۔ انسان کا حقیقی مزاج بدستور انسان کی فطرت میں موجود رہتا ہے۔ انسان کے لیے ہمیشہ یہ ممکن رہتاہے کہ وہ اپنی ضمیر کی آواز کو سنے، اور اپنی کنڈیشننگ کو ڈی کنڈیشنڈ کرسکے۔ البتہ یہ فرق ہے کہ ابتدائی فطرت میں کنڈیشننگ کا معاملہ ماحول سے اثر پذیری کی بنا پر ہوتا ہے، لیکن بعد کو اس کی ڈی کنڈیشننگ آدمی خود اپنے ارادے سے کرتا ہے۔ ہر انسان جو سچائی کا طالب ہو، اس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ گہرائی کے ساتھ اپنا محاسبہ (introspection) کرے، وہ اپنے آپ کو دریافت کرے، اور پھر اپنے آپ کو دوبارہ اصل فطرت پر قائم کرے۔ یہ کام ہر آدمی کو لازماً کرنا ہے۔ اس ڈی کنڈیشننگ کے بغیر کوئی شخص دوبارہ اپنی اوریجنل فطرت پر قائم نہیں ہوسکتا۔
اس معاملے کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہر آدمی کو اپنا مصلح آپ بننا ہے۔ ہر آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ بے لاگ طور پر اپنا جائزہ لے۔ وہ عذر(excuse)کو قبول نہ کرے، وہ اپنا نگراں آپ بنے۔ اس طرح وہ آسانی کے ساتھ اپنی شخصیت کی تعمیرِ نو کرسکتا ہے۔ یہاں آدمی کے لیےاس کا ضمیر (conscience) اس کا معاون ہے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ انسان کا ضمیر ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ انسان کا ضمیر کبھی بدلتا نہیں۔ اس لیے ہر انسان کے لیے ہمیشہ یہ موقع باقی رہتا ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کرکے خود کو دریافت کرے، اور اپنے آپ کو اصلاح یا فتہ انسان بنائے۔