فریم ورک کا مسئلہ

ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مصنف کی کتاب ہے جس کا نام ہے:

A Modern Appraoch to Islam by Dr A A Faizi (1899-1981)

میں نے اس کتاب کو مکمل طو رپر پڑھا ہے۔ اس پر ایک تبصرہ بھی لکھا ہے۔ میرے مطالعہ کے مطابق، اس کتاب میں مسئلہ کی صحیح ترجمانی نہیں  ہے۔ موجودہ زمانے میں اسلام کا اصل مسئلہ ماڈرن اپروچ کا مسئلہ نہیں  ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ سائنٹفک انقلاب کے بعد اسلوب کے اعتبار سےفریم ورک (framework) بدل گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اسلام کی دعوت کو جدید فریم ورک کے اعتبار سے پیش کیا جائے۔ مثلا موجودہ زمانے میں ادبی اسلوب ایک متروک اسلوب بن چکا ہے۔ اب دنیا میں سائنٹفک اسلوب کا رواج ہے۔ تبدیلیٔ اسلوب کے سلسلہ میں تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو حسب ذیل کتاب:

The Great Intellectual Revolution by John Frederick West

(J. Murray, 1965, pp.132)

اس کتاب کاایک چیپٹرہے :تمثیلی اسلوب کا خاتمہ (The Death of Metaphor)۔ یہ چیپٹر اس موضوع پر بحث کرتا ہے۔ تمثیلی اسلوب (metaphor) میں ادبی اسلوب بھی شامل ہے۔ یہاں اس اسلوب کی ایک مثال درج کی جاتی ہے۔ ایک معروف مسلمان عالم نے اپنی سیرت کی کتاب کے دیباچہ میں یہ بتایا ہے کہ اسلام عرب میں کیوں آیا۔ اس میں وہ لکھتے ہیں : معمورۂ عالم کے صفحےنقشہائے باطل سے ڈھک چکے تھے۔ اب ایک سادہ، بے رنگ، ہر قسم کے نقش و نگار سے معرّا ورق درکار تھا، جس پر طغرائے حق لکھا جائے۔

یہ ادبی اسلوب کی مثال تھی۔ اب ماڈرن سائنٹفک فریم ورک کے اعتبار سے یہ کہاجائے گا کہ یہ پوری عبارت ادبی اسلوب میں ہے۔ اس سے متعین (specific) انداز میں معلوم نہیں  ہوتا کہ جو واقعہ ہوا، وہ کیا تھا۔ اس کے برعکس، اس واقعہ کو سائنٹفک اسلوب میں کہا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ اسلام کے ظہور کا معاملہ دو فیز (phase) سے تعلق رکھتا ہے۔ پیغمبر ابراہیم نے اپنی اہلیہ ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو اس صحرائی مقام پر بسایا جہاں اب مکہ واقع ہے۔ یہ گویا ڈزرٹ تھرپی (desert therapy) کا معاملہ تھا۔ اس صحرائی ماحول میں دوہزار سالہ توالد وتناسل کے ذریعہ ایک نسل بنو اسماعیل تیار ہوئی، جو مشرکانہ ماحول کی کنڈیشننگ سے پاک تھی۔ یہ ڈی کنڈیشنڈ قوم (deconditioned nation) بڑی حد تک اپنی فطرت پر قائم تھی۔ اس ڈی کنڈیشنڈ نسل میں پیغمبرِ اسلام نے اپنا مشن شروع کیا۔ پیغمبر ابراہیم نے اس مشن کو باعتبار تربیت شروع کیا، اور پیغمبرِ اسلام نے اس مشن کو عملی اعتبار سے تکمیل تک پہنچایا۔

مذکورہ عالم نے اس قوم کے بارے میں جو کچھ کہا، وہ ایک ادبی اسلوب تھا، اور ادبی اسلوب جدید فریم ورک کے خلاف ہے۔ اس کے برعکس، اوپر جو لکھا گیا، وہ جدید فریم ورک کے اسلوب کی مثال ہے۔ ہمارے مصنفین کی کتابوں میں اصل کمی یہی ہے۔ میرے تجربے کے مطابق، ان میں سے کوئی کتاب ایسی نہیں  ہے، جو جدید فریم ورک کے مطابق ہو۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتابیں عصری ذہن کو ایڈریس نہیں  کرتیں۔ ان کتابوں میں عصری ذہن کو کوئی ٹیک اوے (takeaway) نہیں  ملتا۔ اور جب پڑھنے والے کو ٹیک اوے نہ ملے تو ایسی تحریروں کو پڑھنا، اور نہ پڑھنا برابر ہوجاتا ہے۔

مسلم مصنفین کی جو کتابیں ہمارے کتب خانوں میں موجود ہیں ، ان کا بڑا حصہ اسی قسم کا ہے جو جدید علمی معیار پر پورا نہیں  اترتا۔

میں نے ایک امریکی پروفیسر سے پوچھا کہ امریکا کی ترقی کا راز کیا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ ڈسینٹ (dissent) کا احترام کرنا۔ اس نے کہا کہ ہم ڈسینٹ (اختلاف) کو بُرا نہیں  سمجھتے۔ ہم ڈسینٹ کو اُس وقت تک برداشت کرتے ہیں جب تک وہ تشدد نہ بنے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom