ایک عام غلطی

مصر کی الاخوان المسلمون کے لیڈر ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے پانچویں منتخب صدر تھے۔ وہ یکم جولائی2012 کو مصر کے صدر منتخب ہوئے، تاہم ایک سال مکمل ہونے سے پہلے ہی پورے ملک میں ان کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے، جس کے بعد جولائی 2013 میں مصری افواج نے انہیں  اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ بوقتِ تحریر (10 جولائی 2018)و ہ مصر کی جیل میں ہیں۔ بحیثیتِ صدر انھوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا: أصبت أحیانا وأخطأت أحیانا أخرى (Sky News Arabia, published on June 26, 2013)۔یعنی میں نے کبھی درست کام کیا، اور کبھی میں نے غلطی کی۔یہ تقریر ابھی بھی یو ٹیوب پر موجود ہے۔

یہ غلطی کیا تھی، جو ان کے زوال کا سبب بنی۔ یہ در اصل کچھ ایسے اقدامات تھے، جو مصری فوج کے مفاد (interest) کے خلاف تھے۔ مثلاً سوئز کنال کی توسیع کے بارے میں فوجی حکومت کے دور میں کچھ کمپنیوں کو ٹھیکے دیے گئے تھے۔ ان ٹھیکوں کو ڈاکٹر مرسی نے قابلِ اعتراض سمجھا۔ چنانچہ انھوں نے ٹھیکوں کی منسوخی کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر مرسی اور فوجیوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔ جس ;کا نتیجہ یہ ہوا کہ فوج نے قبل از وقت ان کی صدارت کا خاتمہ کردیا۔

یہ غلطی کی وہ قسم ہے، جو اکثر اربابِ اقتدار کرتے ہیں۔ پولیٹکل اقتدار میں آنے سے پہلے، ان کا ایک ایجنڈا ہوتا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد وہ فوراًاپنے ایجنڈے کو عمل میں لانا شروع کردیتے ہیں۔ مگر یہ طریقہ حکمت کے خلاف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ اس معاملے میں جلدی نہ کی جائے۔ کچھ نازک چیزوں کو ناتمام ایجنڈا (unfinished agenda) کے طور پر چھوڑ دیا جائے۔ مگر اکثر اربابِ اقتدار اس معاملے میں غلطی کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حالات خراب ہوجاتے ہیں ، اور قبل از وقت ان کو اقتدار سے محروم ہوجانا پڑتا ہے، اور پھر ایک فریق دوسرے فریق کو الزام دینا شروع کردیتا ہے۔ حالاں کہ قرآن کی ایک آیت (الحج22:28) میں اس معاملے کے لیے رہنمائی موجود ہے۔ وہ رہنمائی کیا ہے۔ اس کی ایک مثال پیغمبر اسلام نے عملاً پیش کی ہے۔

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو 8 ہجری میں مکہ کا اقتدار ملا۔ اس وقت کعبہ کی عمارت میں ایک مسئلہ موجود تھا۔ وہ یہ کہ کعبہ کاتقریبا ًدو تہائی حصہ مسقف (covered)تھا،یہ کعبہ کی موجودہ عمارت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک تہائی حصہ غیر مسقف (non-covered)پڑا ہوا تھا، جس کو حطیم کہا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ نے غیر مسقف حصے کو بھی مسقف بنانے کا مشورہ دیا، لیکن رسول اللہ نےایسا نہیں  کیا، اور غیر مسقف حصے کو بدستور ایز اٹ از (as it is) چھوڑ دیاکیوں کہ ایسا کرنا اہل مکہ کو ناپسند ہو سکتا تھا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1584)۔

کعبہ کی عمارت کا یہ معاملہ رسول اللہ کی ایک حکیمانہ سنت کو بتاتاہے۔ وہ بتاتا ہے کہ زندگی میں کچھ چیزوں کو ناتمام ایجنڈے کے طور پر چھوڑنا پڑتا ہے، خواہ آدمی کو مکمل اقتدار ملا ہوا ہو۔یہ اجتماعی زندگی کی ایک اہم حکمت ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ لوگوں نے اس واقعے سے سبق نہیں  لیا۔ ہر آدمی اقتدار پانے کے بعد اپنے ایجنڈے کو فوراً مکمل کرنا شروع کردیتا ہے۔ اگرچہ اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کو مکمل تو نہیں  کرپاتا، البتہ اس کے اقتدار کا قبل از وقت خاتمہ ہوجاتا ہے۔

اس کی مثالیں تاریخ میں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ اسی نوعیت کی ایک مثال پاکستان کی تاریخ میں ہے۔ 1947 میں جب پاکستان بنا، تو شیخ مجیب الرحمن مسلم لیگ کی جماعت میں شامل تھے۔ لیکن محمد علی جناح نے 21 مارچ 1948 کو یہ اعلان کیا کہ اردو پورے پاکستان (بشمول ایسٹ پاکستان)کی قومی زبان ہوگی۔ شیخ مجیب الرحمن اپنے بنگالی ذوق کے مطابق اس اعلان کے سخت خلاف ہوگئے، وہ مسلم لیگ سے الگ ہوگئے، اور ایک علاحدہ ملک کی تحریک چلائی، جو آخر کار اس پر منتج ہوئی کہ مشرقی پاکستان، پاکستان سے ٹوٹ کر نیا ملک (بنگلہ دیش) بن گیا۔

ناتمام ایجنڈے پر راضی ہونا، ایک پریکٹکل وزڈم (practical wisdom)ہے۔ اجتماعی زندگی کی یہ ایک اہم حکمت ہے۔ اس حکمت کے بغیر کوئی شخص بڑی کامیابی حاصل نہیں  کرسکتا۔ جیسا کہ کعبہ میں حطیم کی مثال سے سمجھا جاسکتاہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom