روحانیت کیا ہے

ایک مجلس میں ایک صاحب نے یہ سوال کیا کہ اسلام میں روحانیت کا تصور کیا ہے، اور اسلامی نقطۂ نظر سے روحانیت کو پانے کا کیا اصول ہے۔ اس معاملہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ روحانیت (spirituality) کا لفظ بعد کی تاریخ میں بولا جانے لگا۔ قرآن میں اس مفہوم کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ربانیت ہے۔ روحانیت بلاشبہ ایک مطلوب چیز ہے۔

عام تصور یہ ہے کہ روحانیت کا مقام پانے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ترکِ دنیا (renunciation) ہے۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ ترکِ دنیا سے جو چیز ملتی ہے وہ روحانیت نہیں  ہے بلکہ وہ رہبانیت ہے اور رہبانیت اسلام میں نہیں  (مسنداحمد، حدیث نمبر 25893)۔

روحانیت یا ربّانیت یہ ہے کہ آدمی کی داخلی شخصیت ربانی شخصیت بن جائے۔ وہ خدا اور آخرت کے تصور میں جینے لگے۔ روحانیت کا یہ درجہ فکری انقلاب کے ذریعہ آتا ہے نہ کہ مادی دنیا کو چھوڑنے کے نتیجہ میں۔ یہ فکری انتقال کا ایک عمل ہے نہ کہ جسمانی انتقال کا کوئی عمل۔ قرآن کے مطابق، اس فکری انتقال کا ذریعہ توسم ہے۔ یہ روحانیت کسی کو اس ذہنی بیداری کے ذریعہ ملتی ہے جس کو قرآن میں ذکر ِکثیر (الجمعہ،62:10) کہا گیا ہے۔

یہ ذکرِ کثیر کوئی لسانی تکرار نہیں ، وہ دراصل ایک فکری عمل ہے۔ یعنی مادی چیزوں میں خدا کی نشانیاں دیکھنا۔ مادی تجربات سے آخرت کا سبق نکالنا۔ دنیا کی ہر چیز میں یہ ربانی پہلو چھپا ہوا ہے۔ روحانیت یہی ہے کہ آدمی دنیوی یا مادی سرگرمیوں کے درمیان رہتے ہوئے ان نشانیوں کو دیکھے۔وہ مادی تجربہ کو روحانی تجربہ میں کنورٹ کرسکے۔ روحانیت دراصل کنورژن کی اسی ذہنی صلاحیت کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔ روحانیت نہ دنیا کو ترک کرنے سے ملتی ہے اور نہ الفاظ کی لسانی تکرار سے۔ روحانیت کا درجہ اُس کو ملتا ہے جو مادی دنیا کو اپنے لیے روحانی خوراک بنا سکے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom