ہدایت کا اصول
قرآن کی ایک آیت یہ ہے:وَلَوْ عَلِمَ اللَّہُ فِیہِمْ خَیْرًا لَأَسْمَعَہُمْ وَلَوْ أَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَہُمْ مُعْرِضُونَ(8:23)۔ یعنی اگر اللہ جانتا اُن میں کچھ بھلائی تو وہ ضرور اُن کو سنا دیتا، اور اگر وہ اب اُن کو سنادے تو وہ ضرور بھاگیں گے منہ پھیر کر:
If God had found any good in them, He would certainly have made them hear; but being as they are, even if He makes them hear, they will turn away in aversion.
قرآن کی اِس آیت میں جو بات اللہ کی نسبت سے کہی گئی ہے، وہ در اصل انسان کی نسبت سے ہے۔ اِس آیت میں ہدایت ملنے یا نہ ملنے کا اصول بتایا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہدایت عملی طور پر ہر ایک کے سامنے آتی ہے، لیکن اس کی قبولیت کا تعلق ہمیشہ طلبِ حق سے ہوتا ہے۔ جو شخص پہلے سے طالب (seeker)ہو، وہ فوراً ہدایت کو پہچان لیتا ہے اور اس کو دل سے قبول کرلیتا ہے۔ لیکن جس آدمی کے اندر طلب کا گہرا جذبہ موجود نہ ہو، وہ ہدایت کو پہچاننے میں ناکام رہے گا، اس کا کنفیوژن اس کے لیے ہدایت کو قبول کرنے میں مانع بن جائے گا۔
ہدایت کا سارا معاملہ سچی طلب پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر آدمی کے اندر سچی طلب موجودنہ ہو تو ہدایت اس کے سامنے آئے گی، لیکن کسی نہ کسی عذر کی بنا پر وہ اس کو قبول کرنے سے محروم رہے گا۔
طلب اگرچہ ایک فطری چیز ہے، لیکن آدمی ایساکرتا ہے کہ وہ حق کے سوا دوسری چیزوں کو اہمیت دینے لگتا ہے، مثلاً ذاتی یا قومی مصلحتوں کو۔ یہ مزاج آدمی کے اوپر اِس طرح چھا جاتا ہے کہ وہ حق کو بے آمیز صورت میں دیکھ نہیں پاتا۔
یہ صورتِ حال اس کو کنفیوژن میں مبتلا کردیتی ہے، اور کنفیوژن بلا شبہ قبولِ حق میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے— حق کا سچا طالب وہ ہے جو اِس سے پہلے غیر ِ حق کی نفی کرچکا ہو۔ یہی انسان حق کا طالب ہے اور ایسے ہی انسان کو خدا کی طرف سے حق کی توفیق ملتی ہے۔