شخصیت کا فریب
مولانا عبد الماجد دریابادی نے لکھا ہے کہ انھوں نے پہلی بار مولانا ابوالکلام آزاد کو لکھنؤ کے ریلوے اسٹیشن پر دیکھا۔ اس وقت ان کو ایسا محسوس ہوا جیسے ان کے سامنے کوئی ایرانی پرنس کھڑا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ مسحور کن شخصیتوں کی داستان کا نام ہے۔ کوئی کسی انسان کی شاندار شخصیت کے سحر میں مبتلا ہوگیا، تو اس نے اسی کو بڑا انسان سمجھ لیا۔ کوئی کسی کے غیر معمولی حافظہ کو دیکھ کر اس سے مسحور ہوگیا۔ کوئی کسی کی خطابت کا گرویدہ ہوگیا، وغیرہ۔
بعض افراد میں کچھ ظاہرفریب خصوصیات ہوتی ہیں۔ لوگ ان ظاہر فریب خصوصیات کو دیکھ کر مسحور ہوجاتے ہیں ، اور ان کو بڑا آدمی سمجھنے لگتے ہیں۔ مگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ان مسحور کن شخصیتوں نے حقیقی معنوں میں کبھی کوئی بڑا کام نہیں کیا۔ مثلا جرمنی کا ہٹلر اپنی تقریر سے لوگوں کو سحر میں مبتلا کردیتا تھا۔ لیکن 56 سال کی عمر میں جب وہ مرا تو اس نے تعمیر و ترقی کی کوئی یادگار نہیں چھوڑی۔
حقیقت یہ ہے کہ بڑے آدمی کی پہچان نہ شاندار شخصیت ہے، اورنہ شاندار خطابت، حتی کہ شاندار حافظہ بھی کسی آدمی کے بڑے ہونے کی پہچان نہیں۔ کسی آدمی کے بڑے ہونے کی پہچان یہ ہے کہ آدمی کے اندر اللہ کا خوف پایا جاتا ہو۔ یہ معیار ایک حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:اللہ کا خوف حکمت کا سرا ہے(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 730)۔اللہ کا خوف آدمی کو متواضع (modest) بناتا ہے۔ اللہ کا خوف آدمی کو سنجیدہ (sincere) بناتا ہے۔ اللہ کا خوف آدمی کو محتاط (cautious) بناتا ہے۔ اللہ کا خوف آدمی کے اندر وہ صفت پیدا کرتا ہے، جس کو حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: جو اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے، وہ بھلی بات کہے یا وہ چپ رہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6018)۔یہ صفات آدمی کو مین آف وزڈم (man of wisdom)بناتی ہے، اور جو آدمی مین آف وزڈم ہو، وہی آدمی جانتاہے کہ سوچنے کے وقت وہ کیا سوچے اور بولنے کے وقت وہ کیا بولے۔