اعلیٰ شخصیت
انسان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اس کے اندر اعلیٰ شخصیت کا ارتقا ہو۔ لیکن اکثر حالات میں انسان خود اس معاملے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ وہ اپنی کسی کمزوری کی بنا پر اپنے اندر اعلیٰ شخصیت کا ارتقا ہونے نہیں دیتا۔ علمی دنیا میں اس کی مثالیں بہت عام ہیں۔ مثلاً ایک آدمی ایک کتاب لکھے گا، اس میں وہ ایک فکر (thought) کا ذکر کرے گا۔ وہ ایسا کرے گا کہ اپنی تھیم (theme)کا اصل فکر تو کسی اور سے لے گا، لیکن غیر متعلق طور پر کسی کا حوالہ دے کر یہ ظاہر کرے گا کہ اس کی تھیم فلاں شخص سے ماخوذ نہیں ہے، بلکہ دوسرے شخص سے ماخوذ ہے۔ اس طرح وہ اپنے خیال کے مطابق، اپنے آپ کو بچاتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ اپنے آپ کو کھو رہا ہے۔
اعلیٰ شخصیت والا انسان وہ ہے، جو کھلے اعتراف والا ہو، جس کا یہ حال ہو کہ جب اس کو کسی سے کوئی بات ملے تو وہ ایسا نہ کرے کہ دوسرے سے ملی ہوئی بات کو خود اپنی طرف منسوب کرلے، بلکہ وہ کھلے طور پر اس بات کا اعتراف کرے کہ اس کو یہ بات فلاں شخص سے حاصل ہوئی ہے۔ زندگی میں شاید سب سے بڑی قابل قدر چیز اعتراف ہے۔ ایک حدیث رسول آئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:جو انسان کا شکر ادا نہیں کرے گا، وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرے گا (مسند احمد، حدیث نمبر 19350)۔ شکر کا مطلب اعتراف (acknowledgment) ہے۔
ایک شخص جب انسان کا اعتراف نہ کرے، تو وہ اپنے اندر ایسی نفسیات کی پرورش کررہا ہے کہ وہ اللہ رب العالمین کا بھی اعتراف کرنے میں ناکام رہے۔ اعتراف انسان کی ایک اعلیٰ صفت ہے۔ اعتراف کے ذریعے انسان کے اندر شخصیت کا ارتقا مسلسل طور پر جاری رہتا ہے، اور جو آدمی اعتراف سے محروم رہے، وہ شکر خداوندی سے بھی محروم رہے گا۔ کیوں کہ قرآن کے مطابق، انسان کے سینے میں دو دل نہیں ہوتے(الاحزاب، 33:4)۔ یہ ناممکن ہے کہ آپ انسان کے معاملے میں بے اعترافی کی نفسیات میں جی رہے ہوں ، اور اللہ کے معاملے میں برعکس طور پر آپ اعتراف والے بن جائیں۔